پیر، 23 مارچ، 2015

مجھے تم یاد کرتے ہو

تمہیں میں یاد آتی ہوں"
اجب پاگل سی لڑکی ہے مجھے ہر خط میں لکھتی ہے
مجھے تم یاد کرتے ہو تمہیں میں یاد آتی ہوں
میری باتیں ستاتی ہیں میری نیندیں جگاتی ہیں
"میری آنکھیں رولاتی ہیں"
دسمبر کی سنہری دھوپ میں اب بھی ٹہلتے ہو
کسی خاموش رستے سے کوئی آواز آتی ہے
ٹھٹھرتی سرد راتوں میں تم اب بھی چھت پہ جاتے ہو
فلک کے سب ستاروں کو میری باتیں سناتے ہو
کتابوں سے تمہارے عشق میں کوئی کمی آئی
یا میری یاد کی شدت سے آنکھوں میں نمی آئی
اجب پاگل سی لڑکی ہے مجھے ہر خط میں لکھتی ہے
جوابا اس کو لکھتا ہوں میری مصروفیت دیکھو
صبح سے شام آفس میں چراغ عمر جلتا ہے
پھر اس کے بعد دنیا کی
کئی مجبوریاں پاؤں میں بھیڑیاں ڈال رکھتی ہیں
مجھے بے فکر چاہت سے بھرے سپنے نہیں دکھتے
ٹہلنے، جاگنے، رونے کی مہلت ہی نہیں ملتی
ستاروں سے ملے عرصہ ناراغ ہوں شاید
کتابوں سے سغف میرا ابھی ویسے ہی قائم ہے
فرق اتنا پڑا ہے اب انہیں عرصے میں پڑتا ہوں
تمہیں کس نے کہا پگلی تمہیں میں یاد کرتا ہوں
کہ خود کو بھلانے کی مسلسل جستجو میں ہوں
تمہیں نہ یاد آنے کی مسلسل جستجو میں ہوں
مگر یہ جستجو میری بہت ناکام رہتی ہے
میرے دن رات میں اب بھی تمہاری شام رہتی ہے
میرے لفظوں کی ہر مالا تمہارے نام رہتی ہے
تمہیں کس نے کہا پگلی تمہیں میں یاد کرتا ہوں
پرانی بات ہے جو لوگ اکثر گنگناتے ہیں
انہیں ہم یاد کرتے ہیں جنہیں ہم بھول جاتے ہیں
اجب پاگل سی لڑکی ہے مجھے ہر خط میں لکھتی ہے
"میری مصروفیت دیکھو"
تمہیں دل سے بھلاوں تو تمہاری یاد آئے نا
تمہیں دل سے بھلانے کی مجھے فرصت نہیں ملتی
اور اس مصروف جیون میں تمہارے خط کا ایک جملہ
"تمہیں میں یاد آتی ہوں"
میری چاہت کی شدت کی کمی ہونے نہیں دیتا
بہت راتیں جگاتا ہے مجھے سونے نہیں دیتا
سو اگلی بار خط میں یہ جملہ نہیں لکھنا
اجب پاگل سی لڑکی ہے مجھے پھر بھی یہ لکھتی ہے
مجھے تم یاد کرتے ہو تمہیں میں یاد آتی ہوں
"تمہیں میں یاد آتی ہوں"



محمد مسعود نونٹگھم

1 تبصرہ:

  1. مجھے اپنی ٹین ایج سے یہ نظم بہت پسند ہے لیکن شاید سالوں بعد میں نے یہ نظم پوری پڑھی۔۔۔ میں نے مختصر سی سُنی تھی یہ نظم اور وہی آج تک حفظ تھی۔۔۔ دماغ کے کسی کونے سے ابھی کچھ الفاظ اس نظم کے نمایاں ہوئے تو آنکھ بھی اشک بار ہر گئی کہ عرصہ دراز سے نا مکمل پڑھتی آرہی ہوں

    جواب دیںحذف کریں