منگل، 19 مئی، 2020

یہ سنگدلی آخر کیوں؟؟

( محمد مسعود نوٹنگھم یو کے )آج کے دور میں اچھی اولاد بھی ملنا ایک لاٹری کی طرح ہے ٹی وی چینل کا اینکر ایدھی اولڈ ہاؤس میں رہائش پزیر لوگوں کا انٹرویو کر رہا تھا، ایک ستر سال کے بزرگ سے جب پوچھا کہ آپ یہاں کب سے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ میں دس سال سے رہ رہا ہوں، پھر اینکر نے پوچھا آپکو یہاں کون چھوڑ گیا تھا تو انہوں نے کہا کہ چھوٹا بھائی چھوڑ گیا تھا کیونکہ جس گھر کے پورشن میں رہتا تھا وہ حصہ اس نے کرایہ پہ دے دیا اور میرے رہنے کی اور کوئی جگہ نہ تھی اسلئے وہ مجھے یہاں چھوڑ گیا، اگلا سوال اینکر نے پوچھا کہ بابا جی آپ کے بھائی کیا کام کرتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ اپنی فیملی سمیت انگلینڈ میں رہتا ہے اور یہاں اسکی بہت بڑی کوٹھی ہے، اگلے سوال کا جواب سن کر اینکر کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئےجب اس نے پوچھا بابا جی آپ کے بچے ہیں تو انہوں نے کہا جی ہاں تین بیٹے ہیں اور تینوں انگلینڈ میں ہی مقیم ہیں، اور ایک بیٹی ہے وہ شادی شدہ ہے۔ اینکر نے پوچھا بابا جی تو بیٹے ملنے آتے ہیں تو بابا جی نے اپنے آنسوں پہ قابو پاتے ہوئے نفی میں جواب دیا۔ ہم نماز نہایت ہی خشوع و خضوع کے ساتھ پڑھتے ہیں لیکن اگر بوڑھے والدین میں سے کوئی پانی کا گلاس مانگ لے تو انہیں آنکھیں دکھانے لگتے ہیں۔
سوشل میڈیا پہ پانچ ہزار دوست لیکن اپنے سگے بھائی سے دو سال سے بول چال بند ہے۔
آج معاشرے میں یہ بے حسی، یہ خود غرضی، 
یہ سنگدلی آخر کیوں؟؟
یہ ہم نے کبھی نہیں سوچا، آخر ایسا کیوں ہے کہ جو والدین ساری زندگی اپنی اولاد کو خون پسینہ بہا کر پالتے ہیں پھر انہیں پڑھاتے لکھاتے ہیں، ان کی زندگی کی تمام ضروریات کو پورا کرتے ہیں، خود بھوکا رہ لیتے ہیں لیکن اپنی اولاد کو بھوکا نہیں دیکھ سکتے، آخر کیوں 
اکثر والدین اولاد کے جوان ہونے کے بعد لاوارثوں کی طرح زندگیاں گزارتے نظر آتے ہیں؟
اللہ ہم سب کو معاف کرے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں