پیر، 28 دسمبر، 2015

تابہ نظر ایک شہر خموشاں ہے

تابہ نظر ایک شہر خموشاں ہے
کُچھ طائروں کی صدائیں ہیں یسین کا وردھ
اور اگر بتیوں کی ہے خوشبو
کہیں تازہ قبروں پہ تازہ گلابوں کے کُچھ ہار ہیں 
ایک تھکا ہارہ حالات کا سخت مارا
کوئی نوجوان رو رہا ہے 
سنو میری پیاری ماں 
اپنے آنگن میں برگد کا جو پیڑ تھا 
جس کے سائے میں ایک چار پائی پہ تو بیٹھ کر
خالقِ دو جہان کی ثناُء کرتی رہتی تھی وہ کٹ گیا 
صحن کے بیچ میں اب ایک دیوار ہے
گھر ہی کیا گھر میں جو کچھ بھی تھا
بھائیوں اور بہنوں میں سب کُچھ بٹ گیا
میرے حصے میں تیری محبت ہے ماں
تیری دُعائیں ہیں ماں
اور مہرباں لمس کی مہرباں یادیں ہیں 
میرا سر گود میں رکھ کہ مُدت ہوئی 
ایک لمحہ بھی شب بھر میں سویا نہیں 
تو خفا ہو گی مُجھ سے یہی سوچ کر
بس سلگتا رہا اور رویا نہیں 

اپنی مرحومہ ولداہ محترمہ کے نام 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں