جمعہ، 27 فروری، 2015

تمہیں مجھ سے محبت ہے

تمہیں مجھ سے محبت ہے

محبت کی طبعیت میں یہ کیسا بچپناقدرت نے رکھا ہے 
کہ یہ جتنی پرانی جتنی بھی مضبوط ہو جائے
ا سے تائید تازہ کی ضرورت پھر بھی رہتی ہے
یقین کی آخر ی حد تک دلوں میں لہلہاتی ہو !
نگاہوں سے ٹپکتی ہو ‘ لہو میں جگمگاتی ہو !
ہزاروں طرح کے دلکش ‘ حسیں ہالے بناتی ہو !
ا سے اظہار کے لفظوں کی حاجت پھر بھی رہتی ہے محبت مانگتی ہے یوں گواہی اپنے ہونے کی کہ جیسے طفل سادہ شام کو اک بیج بوئے اور شب میں بار ہا اٹھے زمیں کو کھود کر دیکھے کہ پودا اب کہاں تک ہے محبت کی طبعیت میں عجب تکرار کی خو ہے کہ یہ اقرار کے لفظوں کو سننے سے نہیں تھکتی بچھڑ نے کی گھڑ ی ہو یا کوئی ملنے کی ساعت ہو اسے بس ایک ہی دھن ہے
کہو ’’مجھ سے محبت ہے ‘‘
کہو ’’مجھ سے محبت ہے تمہیں مجھ سے محبت ہے سمندر سے کہیں گہری ‘ستاروں سے سوا روشن پہاڑوں کی طرح قائم ‘ ہوا ئوں کی طرح دائم زمیں سے آسماں تک جس قدر اچھے مناظر ہیں محبت کے کنائے ہیں ‘ وفا کے استعار ے ہیں ہمارے ہیں ہمارے واسطے یہ چاندنی راتیں سنورتی ہیں سنہر ا دن نکلتا ہے محبت جس طرف جائے ‘ زمانہ ساتھ چلتا ہے کچھ ایسی بے سکو نی ہے وفا کی سر زمینوں میں کہ جو اہلِ محبت کو صدا بے چین رکھتی ہے کہ جیسے پھول میں خوشبو‘ کہ جیسے ہاتھ میں پارا کہ جیسے شام کاتارا محبت کرنے والوں کی سحر راتوں میں ر ہتی ہے گماں کے شاخچوں میں آشیاں بنتا ہے الفت کا  یہ عین وصل میں بھی ہجر کے خد شوں میں رہتی ہے محبت کے مسافر زند گی جب کا ٹ چکتے ہیں تھکن کی کر چیاں چنتے ‘ وفا کی اجر کیں پہنے سمے کی رہگزر کی آخری سر حد پہ رکتے ہیں تو کوئی ڈوبتی سانسوں کی ڈوری تھا م کر دھیرے سے کہتا ہے یہ سچ ہے نا ہماری زند گی اک دو سرے کے نام لکھی تھی  دھند لکا سا جو آنکھوں کے قریب و دور پھیلا ہے ا سی کا نام چاہت ہے تمہیں مجھ سے محبت تھی تمہیں مجھ سے محبت ہے محبت کی طبعیت میںیہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے



محمد مسعود میڈوز نونٹگھم یو کے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں