اتوار، 18 اکتوبر، 2015

سُنو اِس یاد سے کہ دو

سنو 
اِِس یاد سے کہ دو
بہت ہی تھک گیا ہوں میں
میری پلکوں پہ اب تک کچھ ادھورے خواب جلتے ہیں
تمہارے وصل کا ریشم میری نیندوں میں اُلجھا ہے
مرے آنسو تمہارا غم،
میرے چہرے پہ لکھتے ہیں
میرے اندر کئی صدیوں کے سناٹوں کا ڈیرہ ہے
میرے الفاظ بانہیں وا کیے مجھ کو بلاتے ہیں
مگر میں تھک گیا ہوں
اور میں نے خامشی کی گود میں سر رکھ دیا ہے
میں بالوں میں تمہارے ہجر کی نرم انگلیاں محسوس کرتا ہوں
میری پلکوں پہ جلتے خواب ہیں اب راکھ کی صورت
تمہارے وصل کا ریشم بھی اب نیندیں نہیں بنتا
میری آنکھوں میں جیسے تھر کے موسم کا بسیرا ہے
مجھے اندر کے سناٹوں میں گہری نیند آئی ہے
سنو 
ُُاِِس یاد سے کہ دو
مجھے کچھ دیر سونے دے

محمد مسعود میڈوز نونٹگھم یوکی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں