گاؤں بارش میں سلامت ہیں نگر ڈوب گئے
محمد مسعود
گاؤں بارش میں سلامت ہیں نگر ڈوب گئے
جو بلندی پہ بنے تھے وہی گھر ڈوب گئے
ایسا سیلاب نہ پہلے کبھی دیکھا نہ سنا
دیکھتے دیکھتے سارے ہی شجر ڈوب گئے
اب جہاں کس سے اجالے کی لگائے امید
بحر تاریکی میں خود شمس و قمر ڈوب گئے
ان سفینوں کے مقدّر پے بھنور بھی ہے اداس
آ گئے تھے جو کناروں پہ مگر ڈوب گئے
ایک سیلاب سا دنیائے ادب میں آیا
کم نظر زندہ رہے اہل نظر ڈوب گئے
خوش ہیں رہگیر کناروں پہ کسے اس کا ہوش
ساتھ کچھ اور بھی تھے جانے کدھر ڈوب گئے
پیاس بھی خوب تھی کہ بڑھتی ہی رہی
جام صہبا میں میرے شام و سحر ڈوب گئے
گاؤں بارش میں سلامت ہیں نگر ڈوب گئے
جو بلندی پہ بنے تھے وہی گھر ڈوب گئے
دیکھتے دیکھتے سارے ہی شجر ڈوب گئے
اب جہاں کس سے اجالے کی لگائے امید
بحر تاریکی میں خود شمس و قمر ڈوب گئے
ان سفینوں کے مقدّر پے بھنور بھی ہے اداس
آ گئے تھے جو کناروں پہ مگر ڈوب گئے
ایک سیلاب سا دنیائے ادب میں آیا
کم نظر زندہ رہے اہل نظر ڈوب گئے
خوش ہیں رہگیر کناروں پہ کسے اس کا ہوش
ساتھ کچھ اور بھی تھے جانے کدھر ڈوب گئے
پیاس بھی خوب تھی کہ بڑھتی ہی رہی
جام صہبا میں میرے شام و سحر ڈوب گئے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں