بدھ، 11 نومبر، 2015

گاؤں بارش میں سلامت ہیں نگر ڈوب گئے

گاؤں بارش میں سلامت ہیں نگر ڈوب گئے 
محمد مسعود


گاؤں بارش میں سلامت ہیں نگر ڈوب گئے 
جو بلندی پہ بنے تھے وہی گھر ڈوب گئے


ایسا سیلاب نہ پہلے کبھی دیکھا نہ سنا 
دیکھتے دیکھتے سارے ہی شجر ڈوب گئے 


اب جہاں کس سے اجالے کی لگائے امید  
بحر تاریکی میں خود شمس و قمر ڈوب گئے 


ان سفینوں کے مقدّر پے  بھنور بھی ہے اداس 
آ گئے تھے جو کناروں پہ مگر ڈوب گئے 


ایک سیلاب سا دنیائے ادب میں آیا 
کم نظر زندہ رہے اہل نظر ڈوب گئے 


خوش ہیں رہگیر کناروں پہ کسے اس کا ہوش
ساتھ کچھ اور بھی تھے جانے کدھر ڈوب گئے 


پیاس بھی خوب تھی کہ بڑھتی ہی رہی 
 جام صہبا میں میرے شام و سحر ڈوب گئے 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں