ہفتہ، 21 نومبر، 2015

میں افسانے اور شعر و شاعری کیونکر لکھتا ہوں

میں افسانے اور شعر و شاعری کیونکر لکھتا ہوں
تحریر محمد مسعود نونٹگھم یو کے

معزز خواتین و حضرات! مجھ سے کہا گیا ہے کہ میں یہ بتائوں کہ میں افسانہ اور شعر و شاعری کیونکر لکھتا ہوں۔ یہ ’کیونکر‘ میری سمجھ میں نہیں آیا۔ ’کیونکر‘ کے معانی لغت میں تو یہ ملتے ہیں۔ کیسے اور کس طرح۔ اب آپ کو کیا بتائوں کہ میں افسانہ اور شعر و شاعری کیونکر لکھتا ہوں۔ یہ بڑی الجھن کی بات ہے۔ اگر میں ’کس طرح‘ کو پیش نظر رکھوں۔ تو یہ جواب دے سکتا ہوں کہ اپنے کمرے میں صوفے پر بیٹھ جاتا ہوں۔ کاغذ قلم پکڑتا ہوں اور بسم اللہ کر کے افسانے لکھنا شروع کر دیتا ہوں۔ میرے دو بچے ہیں ایک بیٹا اور ایک بیٹی  بیٹی لندن اور بیٹا جسکا نام وقاص مسعود میرے پاس ۔ میں اِس سے باتیں بھی کرتا ہوں لڑائی بھی اور کبھی کبھی باہم لڑائیوں کا فیصلہ بھی کرتا ہوں، اپنے لیے چائے ’سلاد‘ کھانا وغیرہ وغیرہ جو بھی پسند ہو تیار کرتا ہوں، اگر کوئی ملنے والا آ جائے  تو اس کی خاطر داری بھی کرتا ہوں۔ مگر افسانے اور شاعری بھی اپنے ذہین میں لکھے جاتا ہوں۔ اور ساتھ ساتھ سوچتا بھی جاتا ہوں 

اب کیسے ‘ کا سوال آئے تو میں یہ کہوں گا کہ میں ویسے ہی افسانے اور شاعری لکھتا ہوں جس طرح کھانا کھاتا ہوں، غسل کرتا ہوں، سگریٹ پیتا ہوں معاف کرنا کبھی پیتا تھا اور جھک مارتا ہوں۔ اگر یہ پوچھا جائے کہ میں افسانے کیوں لکھتا ہوں تو اس کا جواب حاضر ہے… میں افسانہ اول تو اس لیے لکھتا ہوں کہ مجھے افسانہ نگاری کی چائے کی طرح لت پڑ گئی ہے۔ میں افسانہ نہ لکھوں تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں نے کپڑے نہیں پہنے یا میں نے غسل نہیں کیا۔ یا میں نے چائے نہیں پی۔ میں افسانے نہیں لکھتا۔ حقیقت یہ ہے کہ افسانے مجھے لکھتے ہیں میں بہت کم پڑھا لکھا آدمی ہوں۔ لیکن مجھے بعض اوقات حیرت ہوتی ہے کہ یہ کون ہے جس نے اس قدر اچھے افسانے لکھے ہیں شعر ؤ شاعری لکھی جن پر آئے دن لوگ کہتے ہیں کہ مسعود صاحب کیا بات ہے کیا واقع یہ آپ نے لکھا ہے جب قلم میرے ہاتھ میں نہ ہو تو میں صرف محمد مسعود ہوتا ہوں۔ جسے اردو آتی ہے نہ فارسی، انگریزی نہ فرانسیسی۔ افسانہ میرے دماغ میں نہیں، جیب میں ہوتا ہے، جس کی مجھے کوئی خبر نہیں ہوتی۔ میں اپنے دماغ پر زور دیتا ہوں کہ کوئی افسانہ نکل آئے، افسانہ نگار بننے کی بھی بہت کوشش کرتا ہوں۔ چائے پہ چائے پیتا ہوں 
مگر افسانہ دماغ سے باہر نہیں نکلتا۔ آخر تھک ہار کر بانجھ عورت کی طرح لیٹ جاتا ہوں۔ اس لیے بڑی کوفت ہوتی ہے۔ کروٹیں بدلتا ہوں۔ اٹھ کر اپنی چڑیوں کو دانے ڈالتا ہوں۔ بیٹے وقاص اور اپنی بیٹی ہما سے اور اپنی پوتی عنائیہ سے باتیں کرتا ہوں گھر کا کوڑا کرکٹ صاف کرتا ہوں… جوتے…ننھے منے جوتے جو گھر میں جا بجا بکھرے ہوتے ہیں۔ اٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ رکھتا ہوں… مگر کم بخت افسانہ جو میری جیب میں پڑا ہوتا ہے، میرے ذہن میں نہیں اترتا… اور میں تلملاتا رہتا ہوں۔ جب بہت زیادہ کوفت ہوتی ہے تو باتھ روم میں چلا جاتا ہوں۔ مگر وہاں سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ سنا ہوا ہے کہ ہر بڑا آدمی غسل خانے میں سوچتا ہے لیکن مجھے تجربے سے یہ معلوم ہوا ہے کہ میں بڑا آدمی نہیں ہوں، اس لیے کہ میں غسل خانے تک میں نہیں سوچ سکتا… لیکن حیرت ہے کہ پھر بھی کافی اچھا لکھ لیتا ہوں یہ میں نہیں کہتا آپنے چاہنے والوں کی داد سے پتہ چلتا ہے جو میری شاعری اور افسانوں کو بہت پیار ؤ محبت سے پڑتے اور بہت سارا پیار بھی نچھاور کرتے ہیں اور زیادہ دیر دُور رہو تو پُوچھ بھال بھی کرتے ہیں اور زیادہ دیر دُور نہیں رہنے دیتے
میں خدا کو حاضر ناظر رکھ کے کہتا ہوں کہ مجھے اس بارے میں کوئی علم نہیں کہ میں افسانہ کیونکر لکھتا ہوں اور شعر و شاعری کیسے لکھتا ہوں۔ اکثر اوقات ایسا ہوا ہے کہ جب میں زچ بچ ہوگیا ہوں۔ تو میرا دل کہتا ہے مجھ سے یہ آپ سوچئے نہیں، قلم اٹھائیے اور لکھنا شروع کر دیجیئے میں اس کے کہنے پر قلم یا پنسل اٹھاتا ہوں اور لکھنا شروع کر دیتا ہوں دماغ بالکل خالی ہوتا ہے، لیکن جیب بھری ہوتی ہے خود بخود کوئی افسانہ اچھل کے باہر آجاتا ہے۔ میں خود کو اس لحاظ سے افسانہ نگار نہیں، جیب کترا سمجھتا ہوں جو اپنی جیب خود بھی کاٹتا ہے اور آپ کے حوالے کردیتا ہے۔ 
مجھ ایسا بھی بے وقوف دنیا میں کوئی اور ہوگا۔
بس میں ایسا ہی ہوں 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں