بدھ، 4 نومبر، 2015

دور تجھ سے گزری جو ہر گھڑی لکھ رہا ہوں

دور تجھ سے گزری جو ہر گھڑی لکھ رہا ہوں 
جو بیتا ہے مجھ پر وہ سبھی لکھ رہا ہوں،


تو نے غموں میں اُلجھایا بہت ہے مُجھے 
میں نام تیرے اپنی ہر خوشی لکھ رہا ہوں


یہ عمر بھر کا بندھن ہے دو چار دن کا نہیں
دل میں جتنی ہے چاہت میں سبھی لکھ رہا ہوں


کرو میری باتوں کا یقین تم اگر کرتے ہو تو 
میں تیرے لئے جو کچھ بھی ہوں ابھی لکھ رہا ہوں


نہیں کمی کسی لفظ کی میری اس کتاب میں
میں فقط اپنی غزل میں تیری کمی لکھ رہا ہوں


شاید درد تجھے میرا کبھی اچھا نہ لگے نام 
میں تیرے لئے خود کو اجنبی لکھ رہا ہوں


محمد مسعود 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں