دور تجھ سے گزری جو ہر گھڑی لکھ رہا ہوں
جو بیتا ہے مجھ پر وہ سبھی لکھ رہا ہوں،
تو نے غموں میں اُلجھایا بہت ہے مُجھے
میں نام تیرے اپنی ہر خوشی لکھ رہا ہوں
یہ عمر بھر کا بندھن ہے دو چار دن کا نہیں
دل میں جتنی ہے چاہت میں سبھی لکھ رہا ہوں
کرو میری باتوں کا یقین تم اگر کرتے ہو تو
میں تیرے لئے جو کچھ بھی ہوں ابھی لکھ رہا ہوں
نہیں کمی کسی لفظ کی میری اس کتاب میں
میں فقط اپنی غزل میں تیری کمی لکھ رہا ہوں
شاید درد تجھے میرا کبھی اچھا نہ لگے نام
میں تیرے لئے خود کو اجنبی لکھ رہا ہوں
محمد مسعود
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں