اتوار، 22 نومبر، 2015

اُبلا انڈا

اُبلا انڈا 

محمد مسعود نونٹگھم یو کے


یہ واقع تقریباً 1988 کا ہے اور نومبر یا دسمبر تھا پوری سردی آدھے کپڑے اِک غربت کا مارا بچہ اُبلے انڈے بیچ رہا تھا ٹھٹھری ہوئی آواز جب اُس کی میری کار کے اندر آئی میں جو اِس پوری سردی میں پورے کپڑے پہنے اپنی کار کے ہیٹر کے آگے تھا میں نے بھی اِک اُبلا انڈا گرم فضا میں بیٹھ کے کھایا جو اُس پیارے سے بچے نے سرد ہوا میں سڑک کنارے بیٹھے اور اپنے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے چھیلا تھا پیسے دیتے دیتے میں نے اُس بچے کو غور سے دیکھا پوری سردی آدھے کپڑے اُف نیلے ہونٹوں والا بچہ سرد ہوا میں کانپ رہا تھا بچپن اُس کا ہانپ رہا تھا میں نے اُس کی حالت دیکھی

اور کہا کہ بیٹا تم بھی اِیک انڈہ کھا لو تو کیا ہے  وہ بولا کہ توبہ انکل بیس روپے کا مہنگا انڈہ میں کیسے کھا سکتا ہوں 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں