بدھ، 10 دسمبر، 2014

ماں باپ کا سایہ

ماں باپ کا سایہ
محمد مسعود


واہ ہاتھ جو پونچھتے تھے آنسو میرے  
مٹ جاتے تھے غم ، جنکی دعاؤں کے اثر سے  

ڈھونڈتے ہیں وہ کندھے ، روتی تھی آنکھ جن پر  
ماں باپ کا سایہ جب اٹھ جاتا ہے سر سے  


انگلی پکڑ کر چلنا ، ہزار خواہشیں کرنا  
گزرتی تھی انکی زندگی ، ہمارے ہی ڈگر سے  

یاد آتی ہیں وہ باتیں دل روتا ہے آہ اکثر  
ماں باپ کا سایہ جب اٹھ جاتا ہے سر سے  


وہ روٹھنا ہمارا ، وہ آنسو بہانا  
پوری ہوتی تھیں خواہشیں ، ہمارے اس اثر سے  

باغ آتے ہیں یاد ، چبھتے ہیں کانٹے اکثر  
ماں باپ کا سایہ جب اٹھ جاتا ہے سر سے  


دل توڑنا نا انکا ، نا تکلیف کبھی دینا  
نکالنا ہے تمھیں ہی اُنہیں اشکوں کے شہر سے  

یتیموں کو دیکھو اُنہیں جا کر سمجھو ، کیا ہوتا ہے تب  
ماں باپ کا سایہ جب اٹھ جاتا ہے سر سے  


وہ دھندلی سی آنکھیں ، وہ معصوم سا چہرہ  
یتیموں کو دیکھو گے ، جب ان کے ہی نظر سے  

سمجھ جاؤگے آں تم بھی ، کیا ہوتا ہے تب  
ماں باپ کا سایہ جب اٹھ جاتا ہے سر سے  


احساس کی ایک التجا ہے ، ایک بات میری مانو  
اپنا آشیانہ بنانا ، ان کے محبتوں کے اثر سے  

بہت تکلیف ہوتی ہے ، ، ہوتا ہے کاش ہونٹوں پر اکثر  
ماں باپ کا سایہ جب اٹھ جاتا ہے سر سے




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں