ایک قصبے کے ہوٹل میں ایک سیاح داخل ہوا اور مالک سے اسکے ہوٹل کا بہترین کمرہ دکھانے کو کہا مالک نے اسے بہترین کمرے کی چابی دی اور کمرہ دیکھنے کی اجازت بھی دے دی سیاح نے کاونٹر پر ایک سو پونڈز بطور ایڈوانس رکھا اور کمرہ دیکھنے چلا گیا اس وقت قصبے کا قصاب ہوٹل کے مالک سے گوشت کی رقم لینے آ گیا ہوٹل کے مالک نے وہی سو پونڈز اٹھا کر قصاب کو دے دیے کیونکہ ہوٹل کے مالک کو امید تھی کہ سیاح کو ہوٹل کا کمرہ ضرور پسند آجائے گا
قصائی نے سو پونڈز لے کر فوراً یہ رقم اپنے جانور سپلائی کرنے والے کو دے دی جانور سپلائی والا ایک ڈاکٹر کا مقروض تھا جس سے وہ اپنا علاج کروا رہا تھا تو اس نے وہ سو پونڈز ڈاکٹر کو دے دیے وہ ڈاکٹر کافی دنوں سے اسی ہوٹل کے ایک کمرے میں مقیم تھا اس لیے اُس نے یہی پونڈز ہوٹل کے مالک کو ادا کر دیے
وہ سو پونڈز ویسے ہی کاؤنٹر پر ہی پڑا تھے کہ کمرہ پسند کرنے کے لئے سیڑھیاں چڑھ کر گیا ہوا متوقع گاہک واپس آ گیا اور ہوٹل کے مالک کو بتاتا ہے کہ مجھے کمرہ پسند نہیں آیا یہ کہہ کر اس نے اپنا سو پونڈز واپس اٹھائے اور چلا گیا اکنامک کی اس کہانی میں نہ کسی نے کچھ کمایا اور نہ کسی نے کچھ خرچ کیا لیکن جس قصبے میں سیاح یہ نوٹ لے کر آیا تھا اُس قصبے کے کتنے ہی لوگ قرضے سے فارغ ہو گئے
حاصل مطالعہ محمد مسعود میڈوز نونٹگھم
پیسے کو گھماؤ نہ کہ اس پر سانپ بن کر بیٹھ جاؤ
کہ اسی میں عوام الناس کی فلاح ہے
اور سنت.
دولت کی گردش کو روکنے اور اِسے بینک میں جمع کر کے سود کے ذریعے زیادہ رقم حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں ہم لوگ کو مذہبی تعلیمات کو پڑھنا چاہیے کہ سود پر نروئواد اسلامی فیصلہ ہے کیا ..... پوائنٹ قابل غور ہے اِس پر غور کریں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں