جمعرات، 28 جنوری، 2016

وہ ممالک جہاں پاکستانی بغیر ویزے کے سفر کرسکتے ہیں


فائل مملکت پاکستان اپنے اہم محل وقوع کے باعث دنیا کے نقشے پر نہایت اہمیت کی حامل ہے، جس کا اظہار عالمی قوتوں کی جانب سے ان کے عمل دخل کی صورت میں گاہے بگاہے ہوتا رہتا ہے۔ 

یہی محل وقوع جو ماضی میں پاکستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کررہا تھا اب دہشت گردی اور لاقانونیت کے باعث پاکستان اور اس کے عوام کے لیے مشکلات کا باعث بن گیا ہے۔ یہ ایک ایسا ملک بن گیا ہے جس میں داخل ہونا تو کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن ایک شریف اور قانون پر عمل درآمد کرنے والے عام پاکستانی کا کسی دوسرے ملک کا ویزا حاصل کرکے کسی ترقی یافتہ ملک میں جانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوچکا ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان دنیا کے ان گنے چنے ممالک میں سے ایک ہے جس کے شہری اپنے پڑوسی ممالک میں بھی بغیر ویزے کے نہیں جاسکتے۔ دوسری طرف دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی عوام کی ان گنت قربانیوں کا صلہ عالمی برادری نے اس طرح دیا ہے کہ پاکستان کے عام شہریوں کو باقی ماندہ دنیا سے کاٹ کر رکھ دیا۔ اگرچہ طبقہ امراء کے افراد دولت کی چکاچوند سے ترقی یافتہ ممالک کے ویزے حاصل کرلیتے ہیں، تاہم عام پاکستانی شہری کے لیے ایسا کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے۔

اس تلخ حقیقت کے باوجود دنیا میں موجود لگ بھگ دوسو سے زاید ممالک میں سے تیس سے زاید ایسے ممالک ہیں جہاں پاکستانی شہری بغیر ویزے کے داخل ہوسکتے ہیں یا انہیں کم ازکم اُس ملک میں داخل ہوجانے کے بعد ویزا حاصل کرنا ہوتا ہے۔ آئیے! جانتے ہیں کہ وہ کون سے ممالک ہیں جہاں پاکستانی شہریوں کو بغیر ویزے قدم رکھنے یا ان ممالک کی سرزمین چھونے کے بعد ویزا حاصل کرنے کی سہولت میسر ہے:
٭ایشیا
عرصہ دراز تک فوجی حکم رانوں کے زیر تسلط رہنے والا ملک ’’جمہوریہ اتحاد میانمار‘‘ (سابق برما) میں جانے کے لیے پاکستانی مسافر ’’ای ویزہ (الیکٹرانک ویزا)‘‘ حاصل کرسکتے ہیں، لیکن یہ صرف سیاحتی ویزا ہوتا ہے جو ان مسافروں کو دیا جاتا ہے جو برما کے شہر مانڈلے، ینگون اور نے پی تا ایئرپورٹ پر اترتے ہیں۔


سوا پانچ کروڑ کی آبادی والے ملک میانمار کا شمار جنوب مشرقی ایشیا کے غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے ۔ جنوب مشرقی ایشیا میں چاروں جانب خشکی سے گھرے غربت اور افلاس کے شکار ملک ’’عوامی جمہوریہ لائوس‘‘ اور بحرہند کے ہاتھوں سمندر برد ہونے کے خطرے سے دوچار ملک ’’جمہوریہ مالدیپ‘‘ میں پہنچ کر پاکستانی مسافر تیس دن کا ویزا حاصل کرسکتے ہیں۔

اسی طرح انڈونیشیا کے قریب واقع بارہ لاکھ آبادی والے چھوٹے سے ملک ’’مشرقی تیمور‘‘ جانے کے لیے اگر پاکستانی مسافر مشرقی تیمور کے دارالحکومت ’’دیلی‘‘ کے ایئرپورٹ یا بندرگاہ کا سفر اختیار کریں تو ویزا ان دونوں مقامات پر پہنچ کر حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستانی شہری پہاڑوں سے گھرے ملک ’’وفاقی جمہوریہ نیپال‘‘ کی سرزمین پر پہنچ کر تیس دن کا ویزا حاصل کرسکتے ہیں۔ تاہم یہ ویزا صرف ان پاکستانیوں کو دیا جاتا ہے جو سیاحت کی غرض سے نیپال میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔
٭افریقہ
مشرقی افریقہ میں عرصہ دراز تک خانہ جنگی میں مبتلا رہنے والے چاروں جانب خشکی سے گھرے ملک ’’جمہوریہ برونڈی‘‘ میں اگر اس کے دارالحکومت ’’بہ جمبورا‘‘ کے ایئرپورٹ پر اترا جائے تو دس یوم سے ایک ماہ تک کا ویزا جاری کیا جاتا ہے۔ اسی طرح بحرہند میں واقع انتہائی غریب جزیرہ نما اسلامی ملک ’’کومروس‘‘ جسے ’’اتحاد القمری‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور جنوب مشرقی افریقہ میں خلیج عدن اور بحراحمر کے ساحلوں کے کنارے واقع اسلامی ملک ’’جمہوریہ جبوتی‘‘ بھی پاکستانیوں کو دس دن سے ایک ماہ تک کا ویزا اپنی سرزمین پر پہنچنے کے بعد جاری کرتے ہیں اور اس کے لیے کسی مخصوص ایئرپورٹ پر اترنے کی پابندی بھی نہیں ہے۔

بحرہند میں خط استوا کے ساتھ متنوع جنگلات اور ان میں موجود چاق و چوبند جانوروں سے گھرے اور تیزی سے ترقی کرتے ملک ’’جمہوریہ کینیا‘‘ اور اسی طرح بحرہند کے مشرقی حصے میں واقع دنیا کے چوتھے سب سے بڑے جزیرے پر مشتمل ملک ’’جمہوریہ مڈغاسکر‘‘ میں بھی پاکستانی مسافروں کو نوے دن تک کا وہاں پہنچے کے بعد ویزا فراہم کیا جاتا ہے۔ تاہم مسافر کے پاس موجود پاسپورٹ کی میعاد کم از کم چھے مہینے تک ہونی ضروری ہے۔


اسی طرح براعظم افریقہ کے جنوب مشرقی حصے میں واقع جہالت اور غربت کے ہاتھوں بے حال ملک ’’جمہوریہ موزمبیق‘‘ بھی تیس سے نوے دن کا ویزا پاکستانی مسافروں کو اپنی سرزمین پر فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ بحر ہند میں ایک سو پندرہ چھوٹے بڑے جزائر پر مشتمل ملک ’’جمہوریہ سیچلس‘‘ بھی پاکستانی مسافروں کو اپنے ملک میں پہنچے کے بعد ویزا جاری کرتا ہے۔ تاہم مسافروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ انتظامیہ کو اپنی مضبوط مالی پوزیشن کے ثبوت فراہم کریں۔ نوے ہزار آبادی والا سیچلس انتہائی خوب صورت ساحلوں پر مشتمل جزیرہ ہے۔

دوسری طرف مغربی افریقہ میں واقع خلیج گنی سے متصل ملک ’’جمہوریہ ٹوگو‘‘ میں پہنچنے کے بعد پاکستانیوں کو قابل استعمال ریٹرن ٹکٹ اور مضبوط مالی حیثیت کی بنیاد پر سات دن کا ویزا دیا جاتا ہے، جس میں توسیع کروائی جاسکتی ہے۔ مشرقی افریقہ میں چاروں جانب خشکی اور لاقانونیت کے عفریت میں گھرے ملک ’’جمہوریہ یوگنڈا‘‘ میں بھی پہنچتے ہی ویزا دے دیا جاتا ہے۔

تاہم مسافر کے پاس چھے مہینے تک قابل استعمال پاسپورٹ ہونا ضروری ہے۔ پچاس فی صد مسلم آبادی کا حامل مغربی افریقہ کا ملک ’’جمہوریہ گنی بسائو‘‘ جو انتہائی ابتر اقتصادی صورت حال کا شکار ہے، وہاں پر بھی پاکستانیوں کو پہنچتے ہی ویزا دے دیا جاتا ہے۔ مغربی افریقہ ہی میں بحر اوقیانوس کے وسط میں واقع آتش فشانی کے باعث بننے والے چھوٹے بڑے دس جزیروں پر مشتمل ملک ’’جمہوریہ کیپ وردے‘‘ میں بھی اس کی سرزمین پر پہنچتے ہی پاکستانی مسافروں کو ویزا فراہم کردیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ جمہوریہ کیپ وردے کا شمار خطے میں تیزی سے ترقی کرتے ممالک میں کیا جاتا ہے۔ شمالی افریقہ میں واقع بے روزگاری اور معاشی سرگرمیوں میں انحطاط کا شکار ملک ’’اسلامی جمہوریہ ماریطانیہ‘‘ میں نوے دن اور بحرہند سے متصل مشرقی افریقہ میں واقع ملک ’’متحدہ جمہوریہ تنزانیہ‘‘ میں بھی پاکستانیوں کو سرزمین پر پہنچتے ہی ایک ماہ کا ویزا لگا دیا جاتا ہے۔

٭امریکاز
پینتیس ممالک پر مشتمل زمین کا مغربی کرہ، جس میں شمال، وسطی اور جنوبی امریکا بھی شامل ہیں۔ ’’امریکاز‘‘ اس خطے کے لیے استعمال ہونے والی ایک نسبتاً نئی جغرافیائی اصطلاح ہے۔

بحیرہ کریبیئن (خلیج میکسیکو اور شمالی امریکا کے جنوب مشرقی، جنوبی امریکا کے شمالی اور مغربی اور وسطی امریکا کے مشرقی علاقوں پر مشتمل علاقہ) میں واقع کئی جزیروں پر مشتمل ملک ’’دولت مشترکہ ڈومینیکا‘‘ میں پاکستانیوں کے لیے چھے ماہ تک کا فری ویزا ہے۔ دولت مشترکہ ڈومینیکا میں دنیا بھر کے شہریوں کو اقتصادی بنیاد پر شہریت دینے کی سہولت بھی موجود ہے، جب کہ اسی سمندری علاقے میں واقع غربت میں مبتلا ملک ’’جمہوریہ ہیٹی‘‘ اور آتش فشانی سرگرمیوں سے غیریقینی صورت حال کا شکار ملک ’’مانٹ سیرٹ‘‘ میں بھی پاکستانیوں کے لیے تین ماہ تک ویزا انٹر ی فری ہے، جب کہ امریکاز خطے میں رقبے اور آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹے اور صرف دو جزیروں پر مشتمل ملک ’’سینٹ کیٹزاینڈ نیواس‘‘ میں پہنچنے کے بعد پاکستانی ای ویزے (الیکٹرانک ویزا) کی سہولت حاصل کرسکتے ہیں۔

بحیرہ کریبیئن کی مشرقی اختتامی حدود جہاں سے شمالی بحیرہ اوقیانوس شروع ہوتا ہے۔ اس مقام پر کئی جزیروں پر مشتمل ملک ’’سینٹ ونسنٹ اینڈ گریناڈائنز‘‘ واقع ہے۔ کیلے اور اس سے متعلقہ مصنوعات کے حوالے سے مشہور و معروف اس ملک میں پاکستانیوں سمیت دنیا کے تمام ممالک کے لیے تیس دن تک ویزا انٹری فری ہے۔ ایسی ہی سہولت بحیرہ کریبیئن میں واقع متمول جزیرے ’’جمہوریہ ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹوبیگو‘‘ اور ’’جزاء رترکیہ اینڈ کاکس‘‘ میں بھی پاکستانیوں کو حاصل ہے۔

٭اوشیانا
(آسٹریلیا ، نیوزی لینڈ اور جنوب مشرقی ایشیائی علاقے بشمول بحرالکاہل کے جزائر)
جنوبی بحرالکاہل میں نیوزی لینڈ سے ملحق پندرہ جزیروں پر مشتمل ملک ’’کوک آئی لینڈ‘‘، شمالی آسٹریلیا سے ایک ہزار سات سو کلو میٹر دوری پر واقع آتش فشانی جزیرہ ’’جمہوریہ وانوآتو‘‘ اور نیوزی لینڈ سے چوبیس سو کلومیٹر دور ’’جزیرہ نیوا‘‘ اور مغربی بحرالکاہل میں مشرقی آسٹریلیا کے شمال میں انتیس سو کلو میٹر کی دوری پر چھے سو سات چھوٹے بڑے جزائر پر مشتمل ’’وفاقی ریاست ہائے میکرونیزیا‘‘ میں تیس یوم تک پاکستانی مسافروں کے لیے ویزا انٹری فری ہے۔

جب کہ مغربی بحرالکاہل کے وسط میں فلپائن، انڈونیشیا اور وفاقی ریاست ہائے میکرونیزیا کی سمندری حدود سے متصل ’’جمہوریہ پالائو‘‘، جنوبی بحرالکاہل میں نیوزی لینڈ اور ہوائی کے تقریباً وسط میں واقع جزائر پر مشتمل ملک ’’آزاد سلطنت سامووا‘‘ اور بحرالکاہل ہی میں آسڑیلیا اور جزائر ہوائی کے درمیان میں واقع دنیا کا رقبے کے لحاظ سے چوتھا مختصر ترین ملک’’ تووالو‘‘ ہے۔ ان تینوں ممالک کی سرزمین پر پہنچتے ہی پاکستانیوں کو ویزا فراہم کردیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ تمام ممالک چوں کہ دنیا کے آباد ممالک سے دوری پر واقع ہیں اور ان کا زیادہ تر علاقہ بے آباد ہے، لہٰذا یہاں پر معاشی سرگرمیاں خاصی محدود ہیں۔ تاہم یہاں کے خوب صورت ساحل سیاحوں کے لیے کشش کا باعث ہیں۔

٭مائیکرونیشیا
(اوشیانا خطے میں واقع بحرالکاہل میں پھیلے جزیروں کا ایک خطہ)
وسطی بحرالکاہل میں رقبے کے لحاظ سے دنیا کی تیسری سب سے چھوٹی ریاست ’’جمہوریہ نورو‘‘ کا جزیرہ ہے۔ اس جزیرے میں بھی داخل ہوتے ہی پاکستانی مسافروں کو ویزا فراہم کردیا جاتا ہے۔ ماضی میں دل کش جزیرے (پلیزنٹ آئی لینڈ) کے نام سے معروف اس جزیرے پر سیاحتی مقامات کی بھر مار ہے۔ جزیرے نورو کے حوالے سے ایک منفی عنصر یہ ہے کہ نورو کی مجموعی آبادی کے ستانوے فی صد مرد اور ترانوے فی صد خواتین موٹاپے اور وزن میں زیادتی کا شکار ہیں، جس کے باعث نورو جزیرہ دنیا بھر میں آبادی کے تناسب کے لحاظ سے سب سے زیادہ ٹائپ ٹو کی زیابیطس کی بیماری کا گڑھ بن چکا ہے۔


واضح رہے کہ ’’آن ارائیول‘‘ ویزے یا کسی ملک کی سرزمین پر پہنچ کر ویزے کے حصول کے لیے مسافر کی مالی پوزیشن مستحکم ہونا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ اس کے پاس واپسی کا ہوائی جہاز کا ٹکٹ، رہائش کا مناسب انتظام اور زیرِسیاحت ملک میں شخصی ضمانت ہو تو بہتر ہے۔ اس کے علاوہ کسی بھی ملک کی جانب سے ویزا پالیسی میں تبدیلی ہوسکتی ہے، لہٰذا مسافروں کے لیے ضروری ہے کہ متعلقہ اداروں سے رابطے کے بعد ویزے کے حصول کے لیے رجوع کریں۔

ہین لے اینڈ پارٹنر
ویزا، رہائش، سرمایہ کاری اور شہریت کے حصول میں قانونی معاونت فراہم کرنے والے عالمی شہرت یافتہ ادارے ’’ہین لے اینڈ پارٹنر‘‘ کی جانب سے ہر سال ویزا انڈیکس شائع کی جاتی ہے۔ اس انڈیکس کی درجہ بندی میں ان ممالک کو بتدریج اولین مقام دیا جاتا ہے جن کے شہریوں کو دیگر ممالک میں سفر کرنے کے لیے ویزا درکار نہیں ہوتا۔ اس مقصد کے لیے ’’ہین لے اینڈ پارٹنر‘‘ سفری معلومات کے سب سے بڑے ادارے ’’ انٹرنیشنل ایئرٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن‘‘ (ایاٹا) کے ڈیٹا بیس سے مدد حاصل کرتا ہے۔ نوے کی دہائی میں قائم ہونے والا یہ ادارہ دنیا کے بیشتر ممالک کو سرکاری سطح پر شہریت کے حصول اور ویزے قوانین کی تشکیل میں بھی معاونت فراہم کرتا ہے۔

ویزا فری ممالک
’’ہین لے اینڈ پارٹنر‘‘ کی جانب سے کی جانے والے درجہ بندی کے مطابق وہ اولین دس ممالک جہاں کے شہریوں کو بیرون ملک سفر کے لئے بغیر ویزے کے سفر کی سہولیات حاصل ہیں ان میں پہلے نمبر پر مشترکہ طور پر فن لینڈ، جرمنی، سوئیڈن ، امریکا اور برطانیہ کے ممالک ہیں جن کے شہریوں کو ایک سو چوہتر ممالک میں بغیر ویزے کے سفر کی اجازت ہے۔ دوسرے نمبر پر ایک سو تہتر ممالک کے ساتھ کینیڈا اور ڈنمارک ، تیسرے نمبر پر ایک سو بہتر ممالک کے ساتھ بیلجیم ، فرانس، اٹلی، جاپان ، جنوبی کوریا، لکسمبرگ، نیدرلینڈ، پرتگال اور اسپین ، چوتھے نمبر پر ایک سو اکہتر ممالک کے ساتھ آسٹریا، ناروے اور آئرلینڈ، پانچویں نمبر پر ایک سوستر ممالک کے ساتھ نیوزی لینڈ ، سنگا پور اور سوئزرلینڈ، چھٹے نمبر پر ایک سو انہتر ممالک کے ساتھ یونان، ساتویں نمبر پر ایک سواڑسٹھ ممالک کے ساتھ آسٹریلیا، آٹھویں نمبر پر ایک سو چھیاسٹھ ممالک کے ساتھ ملائیشیا اور مالٹا، نویں نمبر پر ایک سو پینسٹھ ممالک کے ساتھ آئس لینڈ اور دسویں نمبر پر ایک سو باسٹھ ممالک کے ساتھ جمہوریہ چیک اور ہنگری شامل ہیں۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں