ہفتہ، 9 جنوری، 2016

مسجد گرانا گناہ ہے

مسجد گرانا بہت بڑا گناہ ہے

اسلام علیکم 

یہ مسجد موڑہ دورغیاں جو کہ رٹھوعہ محمد علی میرپور آزاد کشمیر میں واقع ہے یہ ایک قدیم مسجد ہے اور سال میں ایک بار منگلا ڈیم کا پانی بڑھ جانے سے آدھی ڈوب جاتی ہے باقی کیا ہوتا ہے فوٹو جو کہ بلکل نئی فوٹو ہے آپ کے سامنے ہے دیکھ سکتے ہیں اِب اِس مسجد کو کُچھ اَنا پرست کے مارے لوگ گرانا چاہتے ہیں مسجد تو خُدا کا گھر ہے مسجد کو گرانا جائز نہیں ہے ،لیکن اگر خود بخود گر جائے تو اس کے سامان کو اس گاؤں کی دوسری مسجد یا دوسرے گاؤں کی مسجد میں منتقل کیا جا سکتا ہے ایسا تو ہو سکتا ہے لیکن آپ مُجھے یہ بتائیں کوئی اُن سے پوچھے اگر انہیں اعتراض اپنے ڈرائیور پر ہو تو کیا گاڑی کو ہی آگ لگا دینے کی بات کریں گے۔ اسی طرح گھر کے چوکیدار سے شکایت ہو تو کیا اپنا گھر ہی گرا ڈالیں گے۔ یہاں تو مسئلہ اس لیے انتہائی نازک ہے کہ مسجد جو اللہ کا گھر ہوتا ہے اُسے گرانے کی کوئی کیسے بات کر سکتا ہے۔لگتا ہے کہ کچھ لوگ انتشار کو کسی طور بھی یہاں ختم نہیں ہونے دینا چاہتے۔ مسجد گرانے والوں کو اب کہیں سے کھانے کے لیے نہیں ملتا مگر اُس کا غصہ مسجد پر نکالا جارہا ہے جس میں گزشتہ کچھ عشروں سے بڑی تعداد میں مسلمان نماز ادا کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اور سب سے اہم بات کہ  مسجد کو گرانے کے لیے مسجد ضرار کا حوالہ دیا جا رہا ہے۔ چوں کہ حوالہ مسجد کا ہے تو میں نے محترم جسٹس ریٹائرڈ مفتی تقی عثمانی کی میں نے ایک بات سُن رکھی  ہے جنہوں نے بتایا کہ مسجد ضرار کی حقیقت یہ ہے کہ ابو عامر عیسائی راہب حضور سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن تھا۔ اُس نے منافقین مدینہ کو خط لکھا کہ میں اس کی کوشش کر رہا ہوں کہ روم کے بادشاہ قیصر مدینہ پر چڑھائی کرے، مگر تم لوگوں کی کوئی اجتمائی طاقت ہونی چاہیے جو اس وقت کے قیصر کی مدد کر سکے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ تم مدینہ ہی میں ایک مکان بنائو اور یہ ظاہر کرو کہ ہم مسجد بنا رہے ہیں تا کہ مسلمانوں کو شبہ نہ ہو۔ پھر اس مکان میں اپنے لوگوں کو جمع کرو اور جس قدر اسلحہ اور سامان جمع کر سکتے ہو وہ بھی کرو، یہاں مسلمانوں کے خلاف آپس کے مشورہ سے معاملات طے کیا کرو۔ اس عیسائی راہب کے مشورہ پر 12 منافقین نے مدینہ طیبہ کے محلہ قباء میں جہاں ہجرت کے وقت رسول اللہﷺ نے قیام فرمایا اور ایک مسجد بنائی تھی وہیں ایک دوسری ’’مسجد‘‘ کی بنیاد رکھی۔ ان منافقین کے نام بھی ابن اسحاق وغیرہ نے نقل کئے ہیں۔ پھر مسلمانوں کو فریب دینے اور دھوکے میں رکھنے کے لیے یہ ارادہ کیا کہ خود حضرت محمدﷺ سے ایک نماز اس جگہ پڑھوا دیں تا کہ سب مسلمان مطمئن ہو جائیں کہ یہ بھی مسجد ہے جیسا کہ اس سے پہلے ایک مسجد یہاں بن چکی ہے۔ ان منافقین کا ایک وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ قباء کی موجودہ مسجد بہت سے لوگوں سے دور ہے، ضعیف بیمار آدمیوں کو وہاں تک پہنچنا مشکل ہے اور خود مسجد قباء اتنی وسیع بھی نہیں کہ پوری بستی کے لوگ اس میں سما سکیں، اس لیے ہم نے ایک دوسری مسجد اس کام کے لیے بنائی تاکہ ضعیف مسلمانوں کو فائدہ پہنچے۔
حضرت محمدﷺ سے انہوں نے عرض کیا کہ اس مسجد میں ایک نماز پڑھ لیں تا کہ برکت ہو جائے۔ آپﷺ اُس وقت غزوئہ تبوک کی تیاری میں مشغول تھے۔ آپﷺ نے یہ عذر فرمایا کہ اس وقت تو ہمیں سفر درپیش ہے، واپسی کے بعد دیکھا جائے گا۔ لیکن غروئہ تبوک سے واپسی کے وقت آپﷺ مدینہ طیبہ کے قریب ایک مقام پرتشریف فرما ہوے تو سورئہ توبہ کی آیات (109,108,107) آپﷺ پر نازل ہوئیں جن میں ان منافقین کی سازش کھول دی گئی تھی۔ آیات کے نازل ہونے پر آپﷺ نے اپنے چند اصحاب کو حکم دیا کہ ابھی جا کر اس مسجد کو ڈھا دو، اور اس میں آگ لگا دو۔ یہ سب حضرات اُسی وقت گئے اور حکم کی تعمیل کر کے عمارت کو ڈھا کر زمین برابر کر دیا۔
تقی عثمانی صاحب کے مطابق یہ تمام واقعہ تفسیر قرطبی اور مظہری کی بیان کی ہوئی روایات سے اخذ کیا گیا ہے اور اسے معارف القرآن میں پڑھا جا سکتا ہے۔ مفتی صاحب کا کہنا ہے کہ اس واقعہ سے یہ صاف معلوم ہوا کہ جس کو قرآن کریم میں مسجد ضرار کہا گیا ہے وہ درحقیقت ایک کافر نے مسجد کا نام لے کر ابتداء ہی سے اس غرض سے بنائی تھی کہ وہ مسلمانوں کے خلاف ایک جنگی اڈے کا کام دے، اور منافقین اُس میں مسلمانوں کے خلاف سازشیں کریں۔ تقی عثمانی صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس معاملہ میں علماء کی کبھی دو رائے نہیں رہیں، بلکہ اس پر مکمل اجماع اور اتفاق ہے کہ اگر کوئی مسجد شروع میں نماز پڑھنے ہی کی غرض سے قائم کر دی گئی ہو تو قیامت تک کے لیے مسجد ہو جاتی ہے، اُسے مرمت اور تجدید کے علاوہ کسی اور مقصد سے کسی بھی حالت میں گرانا ہرگز جائز نہیں۔

ضروری نوٹ
آج میری اِس تحریر کو لائیک مت کریں برائے مہربانی اپنے کومینٹ میں کُچھ نہ ُکچھ ضرور لکھیں مہربانی ہو گی مُجھے آپ کے کومینٹ کی ضرورت ہے آج 

محمد مسعود میڈوز نونٹگھم یو کے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں