جمعرات، 26 مارچ، 2015

راجہ رانی

راجہ رانی

سوچتا ہوں میں کیوں نہ کوئی ایسی کتاب لکھوں 
جس میں کوئی راجہ نہ ہو محتاج کسی رانی کا


محمد مسعود میڈوز نونٹگھم یو کے

میرا تعارف

میرا تعارف 



میرا نام محمد مسعود ہے رٹھوعہ محمد علی میرپور آزاد کشمیر سے تعلق رکھتا ہوں
برطانیہ کے ایک خُوبصورت شہر نونٹگھم میں رہائش پزیر ہوں 
شعر و ادب سے بہت زیادہ لگاؤ ہے ۔
اردو ادب میں میرے پسندیدہ شعرا - علامہ اقبال ، احمد فراز ، فیض احمد فیض ، حبیب جالب ، جون اولیا ، امیر مینائی ، پیر نصیرالدین نصیر جیسے شعراء پسند ہیں۔ پنجابی میں میاں محمد بخش ، وارث شاہ ، بلھے شاہ ، مولوی غُلام رسول ، جوگی جہلمی ، کی شاعری اچھی لگتی ہے۔میں کبھی  کبھی ایک آدھ غزل خود بھی کہہ دیتا ہوں، اِک غزل پیشِ خِدمت ہے اُمید ہے سُخن شناس حضرات پسند کریں گے۔

درد کی سیاہی سے لکھایہ میرا نصیب ہے 
شاعر محمد مسعود


درد کی سیاہی سے لکھایہ میرا نصیب ہے 
بک گئی میر ی محبت کیونکہ میں غریب تھا

پل بھر کوتو ہم بھی نہ سنبھل پائے تھے
گزرا ہے جو ہم پروہ حادثہ بھی عجیب تھا

تمام عمر زندگی سمجھ کر جسے چاہا
آخر سفر میں وہ دل کے قریب تھا

خوشیاں بانٹا رہا میں سب سے زندگی کی
اب غم کے اندھیروں میں نہ کوئی شریک تھا

دل دنیا دیوتا سب پتھر کے ہیں مسعود 
پوجا ایک پیار کو پر وہ بھی فریب تھا


محمد مسعود میڈوز نونٹگھم یو کے

پیر، 23 مارچ، 2015

مجھے تم یاد کرتے ہو

تمہیں میں یاد آتی ہوں"
اجب پاگل سی لڑکی ہے مجھے ہر خط میں لکھتی ہے
مجھے تم یاد کرتے ہو تمہیں میں یاد آتی ہوں
میری باتیں ستاتی ہیں میری نیندیں جگاتی ہیں
"میری آنکھیں رولاتی ہیں"
دسمبر کی سنہری دھوپ میں اب بھی ٹہلتے ہو
کسی خاموش رستے سے کوئی آواز آتی ہے
ٹھٹھرتی سرد راتوں میں تم اب بھی چھت پہ جاتے ہو
فلک کے سب ستاروں کو میری باتیں سناتے ہو
کتابوں سے تمہارے عشق میں کوئی کمی آئی
یا میری یاد کی شدت سے آنکھوں میں نمی آئی
اجب پاگل سی لڑکی ہے مجھے ہر خط میں لکھتی ہے
جوابا اس کو لکھتا ہوں میری مصروفیت دیکھو
صبح سے شام آفس میں چراغ عمر جلتا ہے
پھر اس کے بعد دنیا کی
کئی مجبوریاں پاؤں میں بھیڑیاں ڈال رکھتی ہیں
مجھے بے فکر چاہت سے بھرے سپنے نہیں دکھتے
ٹہلنے، جاگنے، رونے کی مہلت ہی نہیں ملتی
ستاروں سے ملے عرصہ ناراغ ہوں شاید
کتابوں سے سغف میرا ابھی ویسے ہی قائم ہے
فرق اتنا پڑا ہے اب انہیں عرصے میں پڑتا ہوں
تمہیں کس نے کہا پگلی تمہیں میں یاد کرتا ہوں
کہ خود کو بھلانے کی مسلسل جستجو میں ہوں
تمہیں نہ یاد آنے کی مسلسل جستجو میں ہوں
مگر یہ جستجو میری بہت ناکام رہتی ہے
میرے دن رات میں اب بھی تمہاری شام رہتی ہے
میرے لفظوں کی ہر مالا تمہارے نام رہتی ہے
تمہیں کس نے کہا پگلی تمہیں میں یاد کرتا ہوں
پرانی بات ہے جو لوگ اکثر گنگناتے ہیں
انہیں ہم یاد کرتے ہیں جنہیں ہم بھول جاتے ہیں
اجب پاگل سی لڑکی ہے مجھے ہر خط میں لکھتی ہے
"میری مصروفیت دیکھو"
تمہیں دل سے بھلاوں تو تمہاری یاد آئے نا
تمہیں دل سے بھلانے کی مجھے فرصت نہیں ملتی
اور اس مصروف جیون میں تمہارے خط کا ایک جملہ
"تمہیں میں یاد آتی ہوں"
میری چاہت کی شدت کی کمی ہونے نہیں دیتا
بہت راتیں جگاتا ہے مجھے سونے نہیں دیتا
سو اگلی بار خط میں یہ جملہ نہیں لکھنا
اجب پاگل سی لڑکی ہے مجھے پھر بھی یہ لکھتی ہے
مجھے تم یاد کرتے ہو تمہیں میں یاد آتی ہوں
"تمہیں میں یاد آتی ہوں"



محمد مسعود نونٹگھم

مسیحا

مسیحا
وہ دو لاکھ روپے کا قرض دار تھا، روزانہ ہی لوگ اپنا روپیہ پانے کے لئے اُس کے دروازے پر دستک دیتے، ایک دن اُس نے اُن لوگوں سے نجات پانے کا راستہ ڈھونڈ نکالا اور اس زندگی سے چھٹکارا پانے کے لئے ایک کھیت کے ویران کنویں کی جانب خود کشی کے ارادے سے چل پڑا۔ وہاں پہنچنے پر اُس نے دیکھا کہ کنویں کے قریب لوگوں کی بھیڑ جمع ہے۔ لوگ ایک شخص کا ہاتھ پکڑے اُسے سمجھا رہے ہیں لیکن وہ خود کشی کرنے پر بضد ہے وہ جیسے ہی بھیڑ کو چیر کر اُس کے قریب پہنچا ایک شخص نے اُس سے کہا "ذرا اس شخص کو سمجھائیے یہ خود کشی کرنا چاہتا ہے" وہ آگے بڑھا اور پھر اُس نے اُسے زندگی کو زندہ دلی کے ساتھ جینے کا حوصلہ دیا۔

کنویں میں اپنے پیر لٹکائے شخص نے اُس کی باتیں غور سے سنی اور خود کشی کرنے کا ارادہ ترک کرکے اُٹھ کھڑا ہوا اور اُس سے گلے ملتے ہوئے کہنے لگا۔

"دوست تم واقعی زندہ دل انسان ہو تمھاری باتیں مجھ پر اثر کر گئیں، تم میرے لئے مسیحا بن کر آئے"

پھر و ہ دونوں ایک دوسرے کے گلے میں ہاتھ ڈالے لوگوں کے ہجوم سے نکل کر گاؤں کی جانب چل پڑے۔