اتوار، 31 جنوری، 2016

آُسو

تیرے ملنے سے آج کئی درد پرانے نکلے 
یہ آنُسو بھی آج تیرے ملنے کے بہانے نکلے

محمد مسعود 

بوسہ


سوغات

 
تم نے چکھّی ہی نہیں ہجر کی سوغات کبھی
تم پہ گزرے نہیں موسم مسعود وہ سزاؤں والے


محمد مسعود 

جمعہ، 29 جنوری، 2016

آج کا سوال

پیارے نبی 
صلّی اللہ علیہ وسلّم 
کی 
والدہ ماجدہ 
کا انتقال 
کس عُمر میں ہُوا
 ؟

جمعرات، 28 جنوری، 2016

وہ ممالک جہاں پاکستانی بغیر ویزے کے سفر کرسکتے ہیں


فائل مملکت پاکستان اپنے اہم محل وقوع کے باعث دنیا کے نقشے پر نہایت اہمیت کی حامل ہے، جس کا اظہار عالمی قوتوں کی جانب سے ان کے عمل دخل کی صورت میں گاہے بگاہے ہوتا رہتا ہے۔ 

یہی محل وقوع جو ماضی میں پاکستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کررہا تھا اب دہشت گردی اور لاقانونیت کے باعث پاکستان اور اس کے عوام کے لیے مشکلات کا باعث بن گیا ہے۔ یہ ایک ایسا ملک بن گیا ہے جس میں داخل ہونا تو کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن ایک شریف اور قانون پر عمل درآمد کرنے والے عام پاکستانی کا کسی دوسرے ملک کا ویزا حاصل کرکے کسی ترقی یافتہ ملک میں جانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوچکا ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان دنیا کے ان گنے چنے ممالک میں سے ایک ہے جس کے شہری اپنے پڑوسی ممالک میں بھی بغیر ویزے کے نہیں جاسکتے۔ دوسری طرف دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی عوام کی ان گنت قربانیوں کا صلہ عالمی برادری نے اس طرح دیا ہے کہ پاکستان کے عام شہریوں کو باقی ماندہ دنیا سے کاٹ کر رکھ دیا۔ اگرچہ طبقہ امراء کے افراد دولت کی چکاچوند سے ترقی یافتہ ممالک کے ویزے حاصل کرلیتے ہیں، تاہم عام پاکستانی شہری کے لیے ایسا کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے۔

اس تلخ حقیقت کے باوجود دنیا میں موجود لگ بھگ دوسو سے زاید ممالک میں سے تیس سے زاید ایسے ممالک ہیں جہاں پاکستانی شہری بغیر ویزے کے داخل ہوسکتے ہیں یا انہیں کم ازکم اُس ملک میں داخل ہوجانے کے بعد ویزا حاصل کرنا ہوتا ہے۔ آئیے! جانتے ہیں کہ وہ کون سے ممالک ہیں جہاں پاکستانی شہریوں کو بغیر ویزے قدم رکھنے یا ان ممالک کی سرزمین چھونے کے بعد ویزا حاصل کرنے کی سہولت میسر ہے:
٭ایشیا
عرصہ دراز تک فوجی حکم رانوں کے زیر تسلط رہنے والا ملک ’’جمہوریہ اتحاد میانمار‘‘ (سابق برما) میں جانے کے لیے پاکستانی مسافر ’’ای ویزہ (الیکٹرانک ویزا)‘‘ حاصل کرسکتے ہیں، لیکن یہ صرف سیاحتی ویزا ہوتا ہے جو ان مسافروں کو دیا جاتا ہے جو برما کے شہر مانڈلے، ینگون اور نے پی تا ایئرپورٹ پر اترتے ہیں۔


سوا پانچ کروڑ کی آبادی والے ملک میانمار کا شمار جنوب مشرقی ایشیا کے غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے ۔ جنوب مشرقی ایشیا میں چاروں جانب خشکی سے گھرے غربت اور افلاس کے شکار ملک ’’عوامی جمہوریہ لائوس‘‘ اور بحرہند کے ہاتھوں سمندر برد ہونے کے خطرے سے دوچار ملک ’’جمہوریہ مالدیپ‘‘ میں پہنچ کر پاکستانی مسافر تیس دن کا ویزا حاصل کرسکتے ہیں۔

اسی طرح انڈونیشیا کے قریب واقع بارہ لاکھ آبادی والے چھوٹے سے ملک ’’مشرقی تیمور‘‘ جانے کے لیے اگر پاکستانی مسافر مشرقی تیمور کے دارالحکومت ’’دیلی‘‘ کے ایئرپورٹ یا بندرگاہ کا سفر اختیار کریں تو ویزا ان دونوں مقامات پر پہنچ کر حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستانی شہری پہاڑوں سے گھرے ملک ’’وفاقی جمہوریہ نیپال‘‘ کی سرزمین پر پہنچ کر تیس دن کا ویزا حاصل کرسکتے ہیں۔ تاہم یہ ویزا صرف ان پاکستانیوں کو دیا جاتا ہے جو سیاحت کی غرض سے نیپال میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔
٭افریقہ
مشرقی افریقہ میں عرصہ دراز تک خانہ جنگی میں مبتلا رہنے والے چاروں جانب خشکی سے گھرے ملک ’’جمہوریہ برونڈی‘‘ میں اگر اس کے دارالحکومت ’’بہ جمبورا‘‘ کے ایئرپورٹ پر اترا جائے تو دس یوم سے ایک ماہ تک کا ویزا جاری کیا جاتا ہے۔ اسی طرح بحرہند میں واقع انتہائی غریب جزیرہ نما اسلامی ملک ’’کومروس‘‘ جسے ’’اتحاد القمری‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور جنوب مشرقی افریقہ میں خلیج عدن اور بحراحمر کے ساحلوں کے کنارے واقع اسلامی ملک ’’جمہوریہ جبوتی‘‘ بھی پاکستانیوں کو دس دن سے ایک ماہ تک کا ویزا اپنی سرزمین پر پہنچنے کے بعد جاری کرتے ہیں اور اس کے لیے کسی مخصوص ایئرپورٹ پر اترنے کی پابندی بھی نہیں ہے۔

بحرہند میں خط استوا کے ساتھ متنوع جنگلات اور ان میں موجود چاق و چوبند جانوروں سے گھرے اور تیزی سے ترقی کرتے ملک ’’جمہوریہ کینیا‘‘ اور اسی طرح بحرہند کے مشرقی حصے میں واقع دنیا کے چوتھے سب سے بڑے جزیرے پر مشتمل ملک ’’جمہوریہ مڈغاسکر‘‘ میں بھی پاکستانی مسافروں کو نوے دن تک کا وہاں پہنچے کے بعد ویزا فراہم کیا جاتا ہے۔ تاہم مسافر کے پاس موجود پاسپورٹ کی میعاد کم از کم چھے مہینے تک ہونی ضروری ہے۔


اسی طرح براعظم افریقہ کے جنوب مشرقی حصے میں واقع جہالت اور غربت کے ہاتھوں بے حال ملک ’’جمہوریہ موزمبیق‘‘ بھی تیس سے نوے دن کا ویزا پاکستانی مسافروں کو اپنی سرزمین پر فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ بحر ہند میں ایک سو پندرہ چھوٹے بڑے جزائر پر مشتمل ملک ’’جمہوریہ سیچلس‘‘ بھی پاکستانی مسافروں کو اپنے ملک میں پہنچے کے بعد ویزا جاری کرتا ہے۔ تاہم مسافروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ انتظامیہ کو اپنی مضبوط مالی پوزیشن کے ثبوت فراہم کریں۔ نوے ہزار آبادی والا سیچلس انتہائی خوب صورت ساحلوں پر مشتمل جزیرہ ہے۔

دوسری طرف مغربی افریقہ میں واقع خلیج گنی سے متصل ملک ’’جمہوریہ ٹوگو‘‘ میں پہنچنے کے بعد پاکستانیوں کو قابل استعمال ریٹرن ٹکٹ اور مضبوط مالی حیثیت کی بنیاد پر سات دن کا ویزا دیا جاتا ہے، جس میں توسیع کروائی جاسکتی ہے۔ مشرقی افریقہ میں چاروں جانب خشکی اور لاقانونیت کے عفریت میں گھرے ملک ’’جمہوریہ یوگنڈا‘‘ میں بھی پہنچتے ہی ویزا دے دیا جاتا ہے۔

تاہم مسافر کے پاس چھے مہینے تک قابل استعمال پاسپورٹ ہونا ضروری ہے۔ پچاس فی صد مسلم آبادی کا حامل مغربی افریقہ کا ملک ’’جمہوریہ گنی بسائو‘‘ جو انتہائی ابتر اقتصادی صورت حال کا شکار ہے، وہاں پر بھی پاکستانیوں کو پہنچتے ہی ویزا دے دیا جاتا ہے۔ مغربی افریقہ ہی میں بحر اوقیانوس کے وسط میں واقع آتش فشانی کے باعث بننے والے چھوٹے بڑے دس جزیروں پر مشتمل ملک ’’جمہوریہ کیپ وردے‘‘ میں بھی اس کی سرزمین پر پہنچتے ہی پاکستانی مسافروں کو ویزا فراہم کردیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ جمہوریہ کیپ وردے کا شمار خطے میں تیزی سے ترقی کرتے ممالک میں کیا جاتا ہے۔ شمالی افریقہ میں واقع بے روزگاری اور معاشی سرگرمیوں میں انحطاط کا شکار ملک ’’اسلامی جمہوریہ ماریطانیہ‘‘ میں نوے دن اور بحرہند سے متصل مشرقی افریقہ میں واقع ملک ’’متحدہ جمہوریہ تنزانیہ‘‘ میں بھی پاکستانیوں کو سرزمین پر پہنچتے ہی ایک ماہ کا ویزا لگا دیا جاتا ہے۔

٭امریکاز
پینتیس ممالک پر مشتمل زمین کا مغربی کرہ، جس میں شمال، وسطی اور جنوبی امریکا بھی شامل ہیں۔ ’’امریکاز‘‘ اس خطے کے لیے استعمال ہونے والی ایک نسبتاً نئی جغرافیائی اصطلاح ہے۔

بحیرہ کریبیئن (خلیج میکسیکو اور شمالی امریکا کے جنوب مشرقی، جنوبی امریکا کے شمالی اور مغربی اور وسطی امریکا کے مشرقی علاقوں پر مشتمل علاقہ) میں واقع کئی جزیروں پر مشتمل ملک ’’دولت مشترکہ ڈومینیکا‘‘ میں پاکستانیوں کے لیے چھے ماہ تک کا فری ویزا ہے۔ دولت مشترکہ ڈومینیکا میں دنیا بھر کے شہریوں کو اقتصادی بنیاد پر شہریت دینے کی سہولت بھی موجود ہے، جب کہ اسی سمندری علاقے میں واقع غربت میں مبتلا ملک ’’جمہوریہ ہیٹی‘‘ اور آتش فشانی سرگرمیوں سے غیریقینی صورت حال کا شکار ملک ’’مانٹ سیرٹ‘‘ میں بھی پاکستانیوں کے لیے تین ماہ تک ویزا انٹر ی فری ہے، جب کہ امریکاز خطے میں رقبے اور آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹے اور صرف دو جزیروں پر مشتمل ملک ’’سینٹ کیٹزاینڈ نیواس‘‘ میں پہنچنے کے بعد پاکستانی ای ویزے (الیکٹرانک ویزا) کی سہولت حاصل کرسکتے ہیں۔

بحیرہ کریبیئن کی مشرقی اختتامی حدود جہاں سے شمالی بحیرہ اوقیانوس شروع ہوتا ہے۔ اس مقام پر کئی جزیروں پر مشتمل ملک ’’سینٹ ونسنٹ اینڈ گریناڈائنز‘‘ واقع ہے۔ کیلے اور اس سے متعلقہ مصنوعات کے حوالے سے مشہور و معروف اس ملک میں پاکستانیوں سمیت دنیا کے تمام ممالک کے لیے تیس دن تک ویزا انٹری فری ہے۔ ایسی ہی سہولت بحیرہ کریبیئن میں واقع متمول جزیرے ’’جمہوریہ ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹوبیگو‘‘ اور ’’جزاء رترکیہ اینڈ کاکس‘‘ میں بھی پاکستانیوں کو حاصل ہے۔

٭اوشیانا
(آسٹریلیا ، نیوزی لینڈ اور جنوب مشرقی ایشیائی علاقے بشمول بحرالکاہل کے جزائر)
جنوبی بحرالکاہل میں نیوزی لینڈ سے ملحق پندرہ جزیروں پر مشتمل ملک ’’کوک آئی لینڈ‘‘، شمالی آسٹریلیا سے ایک ہزار سات سو کلو میٹر دوری پر واقع آتش فشانی جزیرہ ’’جمہوریہ وانوآتو‘‘ اور نیوزی لینڈ سے چوبیس سو کلومیٹر دور ’’جزیرہ نیوا‘‘ اور مغربی بحرالکاہل میں مشرقی آسٹریلیا کے شمال میں انتیس سو کلو میٹر کی دوری پر چھے سو سات چھوٹے بڑے جزائر پر مشتمل ’’وفاقی ریاست ہائے میکرونیزیا‘‘ میں تیس یوم تک پاکستانی مسافروں کے لیے ویزا انٹری فری ہے۔

جب کہ مغربی بحرالکاہل کے وسط میں فلپائن، انڈونیشیا اور وفاقی ریاست ہائے میکرونیزیا کی سمندری حدود سے متصل ’’جمہوریہ پالائو‘‘، جنوبی بحرالکاہل میں نیوزی لینڈ اور ہوائی کے تقریباً وسط میں واقع جزائر پر مشتمل ملک ’’آزاد سلطنت سامووا‘‘ اور بحرالکاہل ہی میں آسڑیلیا اور جزائر ہوائی کے درمیان میں واقع دنیا کا رقبے کے لحاظ سے چوتھا مختصر ترین ملک’’ تووالو‘‘ ہے۔ ان تینوں ممالک کی سرزمین پر پہنچتے ہی پاکستانیوں کو ویزا فراہم کردیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ تمام ممالک چوں کہ دنیا کے آباد ممالک سے دوری پر واقع ہیں اور ان کا زیادہ تر علاقہ بے آباد ہے، لہٰذا یہاں پر معاشی سرگرمیاں خاصی محدود ہیں۔ تاہم یہاں کے خوب صورت ساحل سیاحوں کے لیے کشش کا باعث ہیں۔

٭مائیکرونیشیا
(اوشیانا خطے میں واقع بحرالکاہل میں پھیلے جزیروں کا ایک خطہ)
وسطی بحرالکاہل میں رقبے کے لحاظ سے دنیا کی تیسری سب سے چھوٹی ریاست ’’جمہوریہ نورو‘‘ کا جزیرہ ہے۔ اس جزیرے میں بھی داخل ہوتے ہی پاکستانی مسافروں کو ویزا فراہم کردیا جاتا ہے۔ ماضی میں دل کش جزیرے (پلیزنٹ آئی لینڈ) کے نام سے معروف اس جزیرے پر سیاحتی مقامات کی بھر مار ہے۔ جزیرے نورو کے حوالے سے ایک منفی عنصر یہ ہے کہ نورو کی مجموعی آبادی کے ستانوے فی صد مرد اور ترانوے فی صد خواتین موٹاپے اور وزن میں زیادتی کا شکار ہیں، جس کے باعث نورو جزیرہ دنیا بھر میں آبادی کے تناسب کے لحاظ سے سب سے زیادہ ٹائپ ٹو کی زیابیطس کی بیماری کا گڑھ بن چکا ہے۔


واضح رہے کہ ’’آن ارائیول‘‘ ویزے یا کسی ملک کی سرزمین پر پہنچ کر ویزے کے حصول کے لیے مسافر کی مالی پوزیشن مستحکم ہونا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ اس کے پاس واپسی کا ہوائی جہاز کا ٹکٹ، رہائش کا مناسب انتظام اور زیرِسیاحت ملک میں شخصی ضمانت ہو تو بہتر ہے۔ اس کے علاوہ کسی بھی ملک کی جانب سے ویزا پالیسی میں تبدیلی ہوسکتی ہے، لہٰذا مسافروں کے لیے ضروری ہے کہ متعلقہ اداروں سے رابطے کے بعد ویزے کے حصول کے لیے رجوع کریں۔

ہین لے اینڈ پارٹنر
ویزا، رہائش، سرمایہ کاری اور شہریت کے حصول میں قانونی معاونت فراہم کرنے والے عالمی شہرت یافتہ ادارے ’’ہین لے اینڈ پارٹنر‘‘ کی جانب سے ہر سال ویزا انڈیکس شائع کی جاتی ہے۔ اس انڈیکس کی درجہ بندی میں ان ممالک کو بتدریج اولین مقام دیا جاتا ہے جن کے شہریوں کو دیگر ممالک میں سفر کرنے کے لیے ویزا درکار نہیں ہوتا۔ اس مقصد کے لیے ’’ہین لے اینڈ پارٹنر‘‘ سفری معلومات کے سب سے بڑے ادارے ’’ انٹرنیشنل ایئرٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن‘‘ (ایاٹا) کے ڈیٹا بیس سے مدد حاصل کرتا ہے۔ نوے کی دہائی میں قائم ہونے والا یہ ادارہ دنیا کے بیشتر ممالک کو سرکاری سطح پر شہریت کے حصول اور ویزے قوانین کی تشکیل میں بھی معاونت فراہم کرتا ہے۔

ویزا فری ممالک
’’ہین لے اینڈ پارٹنر‘‘ کی جانب سے کی جانے والے درجہ بندی کے مطابق وہ اولین دس ممالک جہاں کے شہریوں کو بیرون ملک سفر کے لئے بغیر ویزے کے سفر کی سہولیات حاصل ہیں ان میں پہلے نمبر پر مشترکہ طور پر فن لینڈ، جرمنی، سوئیڈن ، امریکا اور برطانیہ کے ممالک ہیں جن کے شہریوں کو ایک سو چوہتر ممالک میں بغیر ویزے کے سفر کی اجازت ہے۔ دوسرے نمبر پر ایک سو تہتر ممالک کے ساتھ کینیڈا اور ڈنمارک ، تیسرے نمبر پر ایک سو بہتر ممالک کے ساتھ بیلجیم ، فرانس، اٹلی، جاپان ، جنوبی کوریا، لکسمبرگ، نیدرلینڈ، پرتگال اور اسپین ، چوتھے نمبر پر ایک سو اکہتر ممالک کے ساتھ آسٹریا، ناروے اور آئرلینڈ، پانچویں نمبر پر ایک سوستر ممالک کے ساتھ نیوزی لینڈ ، سنگا پور اور سوئزرلینڈ، چھٹے نمبر پر ایک سو انہتر ممالک کے ساتھ یونان، ساتویں نمبر پر ایک سواڑسٹھ ممالک کے ساتھ آسٹریلیا، آٹھویں نمبر پر ایک سو چھیاسٹھ ممالک کے ساتھ ملائیشیا اور مالٹا، نویں نمبر پر ایک سو پینسٹھ ممالک کے ساتھ آئس لینڈ اور دسویں نمبر پر ایک سو باسٹھ ممالک کے ساتھ جمہوریہ چیک اور ہنگری شامل ہیں۔


بدھ، 27 جنوری، 2016

معصومیت

معصومیت قدرت کا نام ہے۔

یہ مالک کے کرم میں ہے۔ موسم کے بدلنے میں ہے۔ پھول کے بے پروا کھلنے میں ہے۔ تتلی کے اُڑنے میں ہے۔ نرم ہوا کے لمس میں ہے ،ایک پل کی دھوپ چھاؤں میں ہے۔ بارش کی رم جھم میں ہے۔ کوئل کی کوک میں ہے۔
بچے کی ہنسی میں ہے ۔ لڑکی کی دوشیزگی میں ہے۔ لڑکے کی حیرت میں ہے۔عورت کےبھروسے میں ہے۔ مرد کی آزادی میں ہے۔ محبت کی ردا میں ہے۔ وعدے کی وفا میں ہے۔
معصومیت کیا ہے ؟ نادانی کا دوسرا نام - بےوقوفی کا رنگین لباس - اگر کوئی معصوم کہہ دے تو ہم خوشی سے پھولے نہیں سماتے اور بےوقوف کہہ دیا تو مرنے مارنے پرتُل جاتے ہیں یا احساسِ ندامت میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔ ہمارے نزدیک عقل مندی معاملہ فہمی اور چالاکی وہ طاقتور ہتھیار ہیں جن کو آراستہ کر کے زندگی کی جنگ جیتی جا سکتی ہے۔ 
کبھی ہماری سادگی چالاکی سمجھی جاتی ہے تو کبھی ہم اپنی چالاکی کو سادگی کے پردے میں چھپا لیتے ہیں -بے شک دُنیا ایک دلدل ہے۔، جابجا گہری کھائیاں ہیں اور آنکھیں کھول کر سفر طے کرنا سفر بخیر کی نوید ہے لیکن زندگی کا ہر فیصلہ چالاکی اور دانش مندی سے کاسۂ لیس ہو کر نہیں ہوتا اور نہ کرنا چاہیے ہمیں آنے والے پل کی کچھ خبر نہیں کوئی نہیں جانتا اُس کے کس عمل کا کس قول کا کیا نتیجہ نکلے -اسی طرح بعض اوقات بےخبری اور نادانی کے فیصلے بھی مالامال کر دیتے ہیں-زندگی کے فیصلوں کے نتائج اگر ہمارے حق میں نہ نکلیں توسوچ کا فرق پھر واضح ہوتا ہے۔ 
حساب کتاب کا سبق دھوکا دے جائے تو اپنے آپ کو کوستے ہیں کہ تخمینہ لگانے میں ہماری غلطی تھی لیکن اگر معصومیت سے خطا ہو جائے تو طبیعت پر بار نہیں پڑتا کہ یہ تو ہماری عادت ہے ـ

محمد مسعود نونٹگھم یو کے 


صبر , شکر , محبت


زندگی میں صبر و شکر اور محبت تینوں کا بڑا درجہ ہے 

صبر مصیبت کو ٹالتا ہے 
شکر نعمت کو بڑھاتا ہے 
اور
محبت خوشیوں کا خزانہ ہے 
الله رب العزت ان تینوں سے آپ کو سدا مالا مال رکھے
آمین ثم آمین 

محمد مسعود نونٹگھم یو کے 

منگل، 26 جنوری، 2016

چیلنج ( سوال )

سوال یہ ہے کہ 

وہ کون سی چیز ہے جس کا نام پانچ حروف پر مشتمل ہے 
نام کا پہلا حرف میم ہے
وہ چیز دن سے روشن ہے 
رات سے سیاہ ہے
کھاؤ تو حرام ہے
پیو تو حلال ہے
عورت ساری زندگی میں ایک بار استعمال کرتی ہے
اور مرد دن میں 5 بار استعمال کرتا ہے
قرآن میں 5 مرتبہ ذکر ہے


جمعرات، 21 جنوری، 2016

تلخ یادیں

میں تو بُھول جاتا ہوں خراشیں تلخ باتوں کی 
مگر جو زخم گہرے دیں وہ رویے یاد رکھتا ہوں 

محمد مسعود نونٹگھم 

بدھ، 20 جنوری، 2016

احساس

😢_____( احساس )_____ 😢

میں عورت ذات ٹھہری ہوں، 
بدنامی سے ڈرتی ہوں___!!
تم کس بات سے ڈرتے ہو ___؟؟
بابا سے مانگ لو مجھ کو____________!!

محمد مسعود نونٹگھم 

لہو کا دور

میخانے سے پوُچھا آج سناٹا کیوں ہے بولا  
لہو کا دور ہے صاحب ۔۔ شراب کون پیتا ہے 

محمد مسعود نونٹگھم یو کے

درد

آج الفاظ نہیں مل رہے تھے صاحب
درد  لکھ دیا ہے  محسوس کیجئے گا



محمد مسعود نونٹگھم 

سُہانا درد

جو تو میرا ہمدرد ہے
سہانا ہر درد ہے 
جو تو میرا ہمدرد ہے

تیری مسکراہٹیں ہیں طاقت میری 
مجھ کو انہی سے امید ملی 
چاہے کرئے کوئی ستم یہ جہاں 
ان میں ہی ہے سدا حفاظت میری 

جو تو میرا ہمدرد ہے
سہانا ہر درد ہے

محمد مسعود نونٹگھم یو کے

منگل، 19 جنوری، 2016

شام ِبخیر

اُسے کہنا ____________؛؛؛

میری سوچیں ہراساں ہیں ______؛؛؛
میرے جذبے پریشان ہیں __________؛؛؛
پریشان ھے میرا دل بھی ___________؛؛؛

اُسے کہنا _______________________؛؛؛
پہلے سے کہیں زیادہ، کہیں بڑھ کر ______؛؛؛
مجھے اسکی ضرورت ھے ____________؛؛؛

( شامِ بخیر )

محمد مسعود نونٹگھم 

پیر، 18 جنوری، 2016

درد بھری باتیں

یہ تو وہ باتیں اور دُکھ ہیں جو بتائی ہم نے
اب زرا وہ سوچو جو آپ سے چھپائی ہونگی

محمد مسعود نونٹگھم 

اتوار، 17 جنوری، 2016

خاوند کی اپنی بیوی کو نصیحت

ایک خاوند نے اپنی بیوی کو پہلی ملاقات میں یہ نصیحت کی۔ کہ چار باتوں کا خیال رکھنا:
پہلی بات یہ کہ مجھے آپ سے بہت محبت ہے۔ اس لئے میں نے آپ کو بیوی کے طور پر پسند کیا۔ اگر آپ مجھے اچھی نہ لگتیں تو میں نکاح کے ذریعے آپ کو گھر ہی نہ لاتا۔ آپ کو بیوی بنا کر گھر لانا اس بات کا ثبوت ہے کہ مجھے آپ سے محبت ہے تا ہم میں انسان ہوں فرشتہ نہیں ہوں اگر کسی وقت میں غلطی کر بیٹھوں تو تم اس سے چشم پوشی کر لینا۔ چھوٹی موٹی کوتاہیوں کو نظر انداز کر دینا۔
اور دوسری بات یہ کہ مجھے ڈھول کی طرح نہ بجانا۔ بیوی نے کہا، کیا مطلب؟ اس نے کہا جب بالفرض اگر میں غصے میں ہوں تو میرے سامنے اس وقت جواب نہ دینا۔ مرد غصے میں جب کچھ کہہ رہا ہو اور آگے سے عورت کی بھی زبان چل رہی ہو تو یہ چیز بہت خطرناک ہوتی ہے۔ اگر مرد غصے میں ہے۔ تو عورت اوائڈ کر جائے اور بلفرض عورت غصے میں ہے تو مرد اوائڈ کر جائے۔ دونوں طرف سے ایک وقت میں غصہ آ جانا یوں ہے کہ رسی کو دونوں طرف سے کھینچنے والی بات ہے۔ ایک طرف سے رسی کو کھینچیں اور دوسری طرف سے ڈھیلا چھوڑ دیں تو وہ نہیں ٹوٹتی اگر دونوں طرف سے کھینچیں تو پھر کھچ پڑنے سے وہ رسی ٹوٹ جاتی ہے۔
تیسری نصیحت یہ ہے کہ دیکھنا مجھ سے راز و نیاز کی ہر بات کرنا مگر لوگوں کے شکوے اور شکائیتیں نہ کرنا۔ چونکہ اکثر اوقات میاں بیوی آپس میں تو بہت اچھا وقت گزار لیتے ہیں۔ مگر نند کی باتیں ساس کی باتیں فلاں کی باتیں، یہ زندگی کے اندر زہر گھول دیتی ہیں۔ اس لئے شکوے شکائتوں سے ممکنہ حد تک گریز کرنا۔
اور چوتھی بات کہ دیکھنا دل ایک ہے یا تو اس میں محبت ہو سکتی ہے یا اس میں نفرت۔ ایک وقت میں دو چیزیں دل میں نہیں رہ سکتیں۔ اگر خلافِ اصول میری کوئی بات بری لگے تو دل میں نہ رکھنا، مجھے سے جائز طریق سے بات کرنا، کیونکہ باتیں دل میں رکھنے سے انسان شیطان کے وسوسوں کا شکار ہو کر دل میں نفرتیں گھولتا ہے اور تعلقات خراب ہو کر زندگی کا رخ بدل دیتے ہیں۔

محمد مسعود میڈوز نونٹگھم یو کے

دولت کی گردش

ایک قصبے کے ہوٹل میں ایک سیاح داخل ہوا اور مالک سے اسکے ہوٹل کا بہترین کمرہ دکھانے کو کہا مالک نے اسے بہترین کمرے کی چابی دی اور کمرہ دیکھنے کی اجازت بھی دے دی سیاح نے کاونٹر پر ایک سو پونڈز بطور ایڈوانس رکھا اور کمرہ دیکھنے چلا گیا اس وقت قصبے کا قصاب ہوٹل کے مالک سے گوشت کی رقم لینے آ گیا ہوٹل کے مالک نے وہی سو پونڈز اٹھا کر قصاب کو دے دیے کیونکہ ہوٹل کے مالک کو امید تھی کہ سیاح کو ہوٹل کا کمرہ ضرور پسند آجائے گا
قصائی نے سو پونڈز لے کر فوراً یہ رقم اپنے جانور سپلائی کرنے والے کو دے دی  جانور سپلائی والا ایک ڈاکٹر کا مقروض تھا جس سے وہ اپنا علاج کروا رہا تھا تو اس نے وہ سو پونڈز ڈاکٹر کو دے دیے وہ ڈاکٹر کافی دنوں سے اسی ہوٹل کے ایک کمرے میں مقیم تھا اس لیے اُس نے یہی پونڈز ہوٹل کے مالک کو ادا کر دیے
وہ سو پونڈز ویسے ہی کاؤنٹر پر ہی پڑا تھے کہ کمرہ پسند کرنے کے لئے سیڑھیاں چڑھ کر گیا ہوا متوقع گاہک واپس آ گیا اور ہوٹل کے مالک کو بتاتا ہے کہ مجھے کمرہ پسند نہیں آیا یہ کہہ کر اس نے اپنا سو پونڈز واپس اٹھائے اور چلا گیا اکنامک کی اس کہانی میں نہ کسی نے کچھ کمایا اور نہ کسی نے کچھ خرچ کیا لیکن جس قصبے میں سیاح یہ نوٹ لے کر آیا تھا اُس قصبے کے کتنے ہی لوگ قرضے سے فارغ ہو گئے 
حاصل مطالعہ محمد مسعود میڈوز نونٹگھم 
پیسے کو گھماؤ  نہ کہ اس پر سانپ بن کر بیٹھ جاؤ
کہ اسی میں عوام الناس کی فلاح ہے

اور سنت.

دولت کی گردش کو روکنے اور اِسے بینک میں جمع کر کے سود کے ذریعے زیادہ رقم حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں ہم لوگ کو مذہبی تعلیمات کو پڑھنا چاہیے کہ سود پر نروئواد اسلامی فیصلہ ہے کیا ..... پوائنٹ قابل غور ہے اِس پر غور کریں 


اتوار، 10 جنوری، 2016

غم ہی غم

دنیا میں غم ہی غم تھے کوئی خوشی نہیں تھی سو میں ڈھونڈنے نکلا اک غم بھلانے والا وہ مجھ کو مل بھی گیا تھا اور میں نے غم بھی بھلا دیے تھے پر مجھ کو لگ گیا تھا وہ غم زمانے والا  وہ آیا اور آ کے بچھڑ بھی گیا تھا بس اس کا غم ہے باقی کیا خوب غم دیا ہے سب غم مٹانے والا  کیسے نہ میں بتاوں سب کو غمِ جدائی جب ایک یہی بچا ہے میرے پاس بس غم سنانے والا حیرت ہے مجھ کو ہوتا کیوں عشق اس کو کہتے  ظالم جو خود ہی غم ہے سب غم بنانے والا سب مشوره ہیں دیتے مُجھ کو میں بھول جاؤں اِس کو اور ڈھونڈوں نیا میں کوئی پھر غم رلانے والا پاگل ہوں میں  کیا چھوڑ دوں میں پیچھا تیرے غموں کا کیوں ہاتھ سے گنوا دوں  یہ غم ہنسانے والا

محمد مسعود نونٹگھم یو کے


ہفتہ، 9 جنوری، 2016

دعا

دعا کیا ہے اور اِسے کیسے مانگتے ہیں
محمد مسعود نونٹگھم یو کے


دُعا
بہت سی اچھی باتوں میں سب سے اچھی بات "دُعا" ہے دُعا کیا ھے اِلتجا ھے اپنے خالق کے سامنے اپنا اِحوال بیان کرنا اور اُس خالق کا اعلان بھی ہے اور ہمارے لیے فرمان بھی ہے میں تمھاری دُعاؤں کو سُنتا بھی ہوں اور قبول بھی کرتا ہوں اور ناراضگی کا اظہار ہے ہر اُس انسان سے جو دُعا نہیں کرتا جو دُعا سے محروم ھو گیا وہ عطا سے محروم ہو گیا  دُعا ایک کیفیت کا نام ھے ایک خاص کیفیت جب بندے پر آتی ھے تو کبھی الفاظ کی شکل میں بیاں ھوتا ہے کبھی آنسو دُعا کا رُوپ دہار لیتے ہیں اور کبھی دردِ دل ہی دُعا ہوتا ہے شِدّتِ غم سے اُٹھنے والی آہ بھی تو دُعا ہی ہے کرب کی حالت میں سینے سے ہر اُٹھنے والی ہُوک بھی دُعا ہے سوال کرتی نظریں اور مُلتجی نگاہ اُٹھنا بھی دُعا ہے خوش قسمت ہے وہ جو کسی کی دُعاؤں میں رہا خطا ہماری دُعاؤں میں ہو سکتی ہے مالک کی عطاؤں میں نہیں جو کچھ نہیں دے سکتا وہ دُعا دے اور کچھ لینا ہو تو دعا لے ۔
جن کے جذبے "صادق" ہوں وہ اپنی سچائی سے دُعا لیتے بھی ھیں اور دُعا دیتے بھی ہیں اُن کے لیےدُعا اندھیری رات میں چراغِ"سحر"کا کام کرتی ہے جو دُعا کی حقیقت کو جان گیا وہ کامیاب ہو گیا اور یہ سلسلہ گھر سے شروع ہونا چاہیے اور پھر اس کو اپنے ارد گرد ہر جگہ پھیلا دینا چاہیے جانے کس کی زباں سے نکلی ہوئی دُعا میں ہمارے لیےشفایاب ہونے کی تاثیر رکھی گئی ہو اور کامیابی ھمارا مُقدر بن جاے 

مسجد گرانا گناہ ہے

مسجد گرانا بہت بڑا گناہ ہے

اسلام علیکم 

یہ مسجد موڑہ دورغیاں جو کہ رٹھوعہ محمد علی میرپور آزاد کشمیر میں واقع ہے یہ ایک قدیم مسجد ہے اور سال میں ایک بار منگلا ڈیم کا پانی بڑھ جانے سے آدھی ڈوب جاتی ہے باقی کیا ہوتا ہے فوٹو جو کہ بلکل نئی فوٹو ہے آپ کے سامنے ہے دیکھ سکتے ہیں اِب اِس مسجد کو کُچھ اَنا پرست کے مارے لوگ گرانا چاہتے ہیں مسجد تو خُدا کا گھر ہے مسجد کو گرانا جائز نہیں ہے ،لیکن اگر خود بخود گر جائے تو اس کے سامان کو اس گاؤں کی دوسری مسجد یا دوسرے گاؤں کی مسجد میں منتقل کیا جا سکتا ہے ایسا تو ہو سکتا ہے لیکن آپ مُجھے یہ بتائیں کوئی اُن سے پوچھے اگر انہیں اعتراض اپنے ڈرائیور پر ہو تو کیا گاڑی کو ہی آگ لگا دینے کی بات کریں گے۔ اسی طرح گھر کے چوکیدار سے شکایت ہو تو کیا اپنا گھر ہی گرا ڈالیں گے۔ یہاں تو مسئلہ اس لیے انتہائی نازک ہے کہ مسجد جو اللہ کا گھر ہوتا ہے اُسے گرانے کی کوئی کیسے بات کر سکتا ہے۔لگتا ہے کہ کچھ لوگ انتشار کو کسی طور بھی یہاں ختم نہیں ہونے دینا چاہتے۔ مسجد گرانے والوں کو اب کہیں سے کھانے کے لیے نہیں ملتا مگر اُس کا غصہ مسجد پر نکالا جارہا ہے جس میں گزشتہ کچھ عشروں سے بڑی تعداد میں مسلمان نماز ادا کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اور سب سے اہم بات کہ  مسجد کو گرانے کے لیے مسجد ضرار کا حوالہ دیا جا رہا ہے۔ چوں کہ حوالہ مسجد کا ہے تو میں نے محترم جسٹس ریٹائرڈ مفتی تقی عثمانی کی میں نے ایک بات سُن رکھی  ہے جنہوں نے بتایا کہ مسجد ضرار کی حقیقت یہ ہے کہ ابو عامر عیسائی راہب حضور سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن تھا۔ اُس نے منافقین مدینہ کو خط لکھا کہ میں اس کی کوشش کر رہا ہوں کہ روم کے بادشاہ قیصر مدینہ پر چڑھائی کرے، مگر تم لوگوں کی کوئی اجتمائی طاقت ہونی چاہیے جو اس وقت کے قیصر کی مدد کر سکے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ تم مدینہ ہی میں ایک مکان بنائو اور یہ ظاہر کرو کہ ہم مسجد بنا رہے ہیں تا کہ مسلمانوں کو شبہ نہ ہو۔ پھر اس مکان میں اپنے لوگوں کو جمع کرو اور جس قدر اسلحہ اور سامان جمع کر سکتے ہو وہ بھی کرو، یہاں مسلمانوں کے خلاف آپس کے مشورہ سے معاملات طے کیا کرو۔ اس عیسائی راہب کے مشورہ پر 12 منافقین نے مدینہ طیبہ کے محلہ قباء میں جہاں ہجرت کے وقت رسول اللہﷺ نے قیام فرمایا اور ایک مسجد بنائی تھی وہیں ایک دوسری ’’مسجد‘‘ کی بنیاد رکھی۔ ان منافقین کے نام بھی ابن اسحاق وغیرہ نے نقل کئے ہیں۔ پھر مسلمانوں کو فریب دینے اور دھوکے میں رکھنے کے لیے یہ ارادہ کیا کہ خود حضرت محمدﷺ سے ایک نماز اس جگہ پڑھوا دیں تا کہ سب مسلمان مطمئن ہو جائیں کہ یہ بھی مسجد ہے جیسا کہ اس سے پہلے ایک مسجد یہاں بن چکی ہے۔ ان منافقین کا ایک وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ قباء کی موجودہ مسجد بہت سے لوگوں سے دور ہے، ضعیف بیمار آدمیوں کو وہاں تک پہنچنا مشکل ہے اور خود مسجد قباء اتنی وسیع بھی نہیں کہ پوری بستی کے لوگ اس میں سما سکیں، اس لیے ہم نے ایک دوسری مسجد اس کام کے لیے بنائی تاکہ ضعیف مسلمانوں کو فائدہ پہنچے۔
حضرت محمدﷺ سے انہوں نے عرض کیا کہ اس مسجد میں ایک نماز پڑھ لیں تا کہ برکت ہو جائے۔ آپﷺ اُس وقت غزوئہ تبوک کی تیاری میں مشغول تھے۔ آپﷺ نے یہ عذر فرمایا کہ اس وقت تو ہمیں سفر درپیش ہے، واپسی کے بعد دیکھا جائے گا۔ لیکن غروئہ تبوک سے واپسی کے وقت آپﷺ مدینہ طیبہ کے قریب ایک مقام پرتشریف فرما ہوے تو سورئہ توبہ کی آیات (109,108,107) آپﷺ پر نازل ہوئیں جن میں ان منافقین کی سازش کھول دی گئی تھی۔ آیات کے نازل ہونے پر آپﷺ نے اپنے چند اصحاب کو حکم دیا کہ ابھی جا کر اس مسجد کو ڈھا دو، اور اس میں آگ لگا دو۔ یہ سب حضرات اُسی وقت گئے اور حکم کی تعمیل کر کے عمارت کو ڈھا کر زمین برابر کر دیا۔
تقی عثمانی صاحب کے مطابق یہ تمام واقعہ تفسیر قرطبی اور مظہری کی بیان کی ہوئی روایات سے اخذ کیا گیا ہے اور اسے معارف القرآن میں پڑھا جا سکتا ہے۔ مفتی صاحب کا کہنا ہے کہ اس واقعہ سے یہ صاف معلوم ہوا کہ جس کو قرآن کریم میں مسجد ضرار کہا گیا ہے وہ درحقیقت ایک کافر نے مسجد کا نام لے کر ابتداء ہی سے اس غرض سے بنائی تھی کہ وہ مسلمانوں کے خلاف ایک جنگی اڈے کا کام دے، اور منافقین اُس میں مسلمانوں کے خلاف سازشیں کریں۔ تقی عثمانی صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس معاملہ میں علماء کی کبھی دو رائے نہیں رہیں، بلکہ اس پر مکمل اجماع اور اتفاق ہے کہ اگر کوئی مسجد شروع میں نماز پڑھنے ہی کی غرض سے قائم کر دی گئی ہو تو قیامت تک کے لیے مسجد ہو جاتی ہے، اُسے مرمت اور تجدید کے علاوہ کسی اور مقصد سے کسی بھی حالت میں گرانا ہرگز جائز نہیں۔

ضروری نوٹ
آج میری اِس تحریر کو لائیک مت کریں برائے مہربانی اپنے کومینٹ میں کُچھ نہ ُکچھ ضرور لکھیں مہربانی ہو گی مُجھے آپ کے کومینٹ کی ضرورت ہے آج 

محمد مسعود میڈوز نونٹگھم یو کے

اتوار، 3 جنوری، 2016

یادیں اور یادگار لمحے

میں نے بہت سے دوست بنائے
کُچھ بہت خاص  کُچھ بہت پیارے 
ایک سے تو مُجھے محبت بھی بہت تھی 
کُچھ ملک چھوڑ گئے تو کسی نے شہر بدل لیا 
کسی نے مُجھے چھوڑ دیا اور کسی کو میں نے
کُچھ دوستوں سے رابطہ ہے اور کُچھ سے نہیں 
کوئی اپنی اَنا کی وجہ سے رابطہ نہیں کرتا 
کہیں میری اَنا ملنے سے روکتی ہے 
وہ سب جہاں بھی ہیں جیسے بھی ہیں 
میں اِب بھی اُنہیں چاہتا ہوں یاد کرتا ہوں 
کیونکہ میں نے اُن کے ساتھ زندگی کے یاد گار دن گزارے ہیں 

محمد مسعود میڈوز نونٹگھم یو کے