جمعرات، 29 جنوری، 2015

ایسا نہیں کہ ہم کو محبت نہیں ملی

ایسا نہیں کہ ہم کو محبت نہیں ملی
محمد مسعود نونٹگھم یو کے


ایسا نہیں کہ ہم کو محبت نہیں ملی
تجھے چاہتے تھے پر تیری الفت نہیں ملی


ملنے کو تو زندگی میں کئی ہمسفر ملے
پر ان کی طبیعت سے اپنی طبیعت نہیں ملی


چہروں میں دوسروں کے تجھے ڈھونڈتے رہے
صورت نہیں ملی تو کہیں سیرت نہیں ملی


بہت دیر سے آیا تھا وہ میرے پاس یاروں 
الفاظ ڈھونڈنے کی بھی مہلت نہیں ملی


تجھے گلہ تھا کہ توجہ نہ ملی تجھے
مگر ہم کو تو خود اپنی محبت نہیں ملی


ہمیں تو تیری ہر عادت اچھی لگی پر افسوس
تیری عادت سے میری عادت نہیں ملی 


بدھ، 28 جنوری، 2015

غموں کو اگر ہم سے دل لگی نہیں ہو گی

 غموں کو اگر ہم سے دل لگی نہیں ہو گی
ہمیں یقین ہے کہ پھر شاعری نہیں ہو گی


تمھاری یاد کے دل میں چراغ جلتے ہیں
یہ بُجھ گئےتو یہاں روشنی نہیں ہو گی


ہم نے تو تمام عمر گزاری ہے آبیاری میں
مگر یہ شاخ تمنا کبھی میری نہیں ہو گی


میں تو راہ حق کا ہی مسافر ہوں مسعود
میرے دُکھوں میں زرا بھی کمی نہیں ہو گی

جب میں چھوٹا سا تھا

جب میں چھوٹا سا تھا
شاید دنیا بہت بڑی ہوا کرتی تھی 
مجھے یاد ہے
میرے گھر سے اسکول تک کا وہ راستہ 
کیا کیا نہیں تھا راستے میں وہاں
چاٹ کے ٹھیلے جلیبی کی دکان 
برف کے گولے اور بہت کچھ 
اب وہاں موبائل شاپ  ویڈیو پارلر ہیں 
پھر بھی سب سُونا ہے 
شاید اب دنیا سمٹ رہی ہے
جب میں چھوٹا سا تھا
شاید شامیں بہت لمبی ہوا کرتی تھیں 
مجھے یاد ہے 
میں ہاتھ میں پتنگ کی ڈور پکڑے
گھنٹوں اڑا کرتا تھا
وہ لمبی سائیکل ریس
وہ بچپن کے کھیل 
وہ ہر شام تھک کے چور ہو جانا
اب وہاں شام نہیں ہوتی دن ڈھلتا ہے
اور براہ راست رات ہو جاتی ہے
شاید وقت سمٹ رہا ہے 
جب میں چھوٹا سا تھا
شاید دوستی بہت گہری ہوا کرتی تھی
دن بھر وہ ہجوم بنا کر کھیلنا
وہ دوستوں کے گھر کا کھانا
وہ لڑکیوں کی باتیں 
وہ ساتھ رونا 
اب بھی میرے کئی دوست ہیں
پر دوستی جانے کہاں ہے
جب بھی ٹریفک سگنل پر ملتے ہیں
ہلو ہلو ہو جاتی ہے
اور پھر اپنے اپنے
راستے چل دیتے ہیں 
چھوٹی عید ہو یا بڑی عید
شادی ہو یا سالگرہ
خُوشی ہو یا غم
نئے سال پر
بس ایس ایم ایس آ جاتے ہیں،
شاید اب رشتے
تبدیل ہو رہے ہیں 
جب میں چھوٹا سا تھا
تب کھیل بھی عجیب ہوا کرتے تھے
چھپن چھپی ہو یا لگڈي ٹانگ
پوشم پا ہو یا ٹپپي ٹپپیی ٹاپ
اب وہاں انٹرنیٹ ہو یا موبائل 
اِن سے فرصت ہی نہیں ملتی 
شاید زندگی بدل رہی ہے
زندگی کا سب سے بڑا سچ یہی ہے 
جو اکثر قبرستان کے باہر
بورڈ پر لکھا ہوتا ہے 
 منزل تو یہی تھی
بس زندگی گزر گئی میری یہاں آتے آتے 
زندگی کا لمحہ بہت چھوٹا سا ہے 
کل کی کوئی بنیاد نہیں ہے
اور آنے والا کل صرف خوابوں میں ہی ہے 
اب جو بچ گئے ہیں 
اس لمحے میں تمناؤں سے بھری
اس زندگی میں ہم صرف حصہ ہیں
کچھ رفتار سست کرو
میرے دوستو
اور
اس زندگی کو جیو 
خوب جیو میرے دوستو





خلُوص

خلُوص
محمد مسعود


کبھی کسی کے خلوص کو نہ ٹھکرائیں
کیونکہ ہر انسان کے سینے میں دل ہوتا ہے 
وہ چاہے غریب کی بستی ہو یا امیر کی ہو
دل میں خُدا رہتا ہے دل تو خُدا کا گھر ہے
ہم کسی کا دل توڑتے ہیں 
تو اپنے رب کو ناراض کرتے ہیں 
اگر ہمیں اپنے کئے پر سزائیں ملنے لگیں
تو کہیں کے نہ رہیں 
کیونکہ وہ سب کُچھ دیکھتا ہے 
اور انصاف کرنے والا ہے



منگل، 27 جنوری، 2015

بہت سی باتیں بتانی ہیں تجھے

بہت سی باتیں بتانی ہیں تجھے
محمد مسعود

میرے گاؤں میں سمندر نہیں ہے
کچھ قطرے پانیوں کے قید ہیں
تالاب میں
جب بھی میں وطن واپس جاتا ہوں
تو ایک شام وہاں گزار دیتا ہوں
مسجد والے تالاب کی سیڑھیوں پر
تالاب کا پانی بدلتا نہیں کبھی
پانی قید ہے وہاں 
 شاید اسی لیے پہچانتا ہے مجھے
جب بھی میں جاؤں وہاں تو کہتا ہے
اچھا ہوا مسعود تو آ گیا 
بہت سی باتیں بتانی ہے تجھے 
اور پھر شروع ہو جاتا ہے
وہ فلاں کی دادی فوت ہو گی 
فلاں کے گھر بیٹا ہوا ہے
فلاں بابو کی نوکری چھوٹ گئی
مغرب کی طرف کا پیپل کا درخت کاٹ دیا
سڑک بنانے والوں نے
وغیرہ وغیرہ
پھر مجھ سے مخاطب ہو کر
پوچھتا ہے مسعود
اچھا یہ تو بتا شہر کے مزاج کیسے ہیں
کون بتاتا ہے تجھے خبریں شہر کی 
میں جواب دیتا ہو 
سمندر ہے نا  ڈھیر سارا پانی 
اور اتنا کہتے ہی 
ایک بگولا پانی کا
گلے میں اٹک جاتا ہے
خُدا حفظ کہہ کہ چلا آتا ہوں
واپس شہر میں
جہاں ایک بڑا سا سمندر ہے
روز سمندر کے کنارے بیٹھا
دیکھتا ہوں
کیسے سینکڑوں گیلن پانی 
بدل جاتے ہیں گزر جاتے ہیں
ایک آدھ قطرہ پانی کا
میری طرف بھی اچھال دیتا ہے سمندر
بس یوں ہی بغیر کسی جان پہچان کے 
اب روز بدلتے پانيوں  والا سمندر 
کیسے شناخت کر پائے گا مجھے
کیسے امید کروں اس سے
کہ وہ کہے گا مسعود
اچھا ہوا تو آ گیا
بہت سی باتیں بتانی ہیں تجھے 

رات گُزری اُن کے انتظار میں

رات گُزری اُن کے انتظار میں
محمد مسعود


رات گُزری اُن کے انتظار میں
اور آنُسو بہتے رہے پیار میں


تنہائی کی چادر تن سے لپٹے
بیھٹے رہے سانسوں کے منجدار میں 


تھا خامُوش منظر بدلا بدلا
دل بھی نہ تھا اختیار میں


وہ آئیں گے سوچتا رہا میں
کھلیں گی کلیاں پھر سے بہار میں


بے وجہ نکل پڑا تھا ایک دن مسعود
پیار ڈھونڈنے کے لیے اِس جہان میں


Poet: MOHAMMED MASOOD
NOTTINGHAM 
UK

میں رات گئے تک جاگوں گا

میں رات گئے تک جاگوں گا
کچھ دوست بہت یاد آئیں گے



کچھ باتیں تھیں پھولوں جیسی
کچھ خوشبو جیسے لہجے تھے



میں جب بھی چمن میں ٹہلوں گا
کچھ دوست بہت یاد آئیں گے



وہ پل بھر کی ناراضگی اور
مان بھی جانا پل بھر میں



میں خود سے جب بھی روٹھوں گا
کچھ دوست بہت یاد آئیں گے

اِن آنکھوں سے رواں رات بات ہو گی

اِن آنکھوں سے رواں رات برسات ہو گی
اگر زندگی صرف جذبات ہو گی



مسافر ہو تم مسافر ہیں ہم بھی
کسی موڑ پر پھر ملاقات ہو گی



صداؤں کو الفاظ ملنے نہ پائیں
نہ بادل گرجیں گے نہ برسات ہو گی



چراغوں کو آنکھوں میں محفوظ رکھنا
بڑی دور تک رات ہی رات ہو گی



ازل سے ابد تک سفر ہی سفر ہے 
کہیں صبح ہو گی کہیں رات ہو گی

اب جو رُوٹھے تو کبھی منانا نہیں جا کر

اب جو رُوٹھے تو کبھی منانا نہیں جا کر
سہہ لیں گے دُکھ اِسے سنانا نہیں جا کر



لوٹ آئے گا ضرور اگر وہ میرا ہوا تو
آج سے طے ہوا خود بلانا نہیں جا کر 



اِسے چاہا ہے اِسے چاہتے رہیں گے
اِس کے دل میں کیا ہے آزمانا نہیں جا کر



ملے تو برسا دیں گے ہم  اپنا پیار اِس پر 
نہیں تو حالِ دل بھی بتانا نہیں جا کر




محمد مسعود
میڈوز
نونٹگھم یو کے 

محبت زندگی کا سفر

محبت زندگی کا سفر
محمد مسعود نونٹگھم 


محبت کا سفر بھی کیا سفر ہے
جو ادھورا ہو نہیں سکتا
محبت کا مسافر چاہے چکنا چُور ہو 
تھک نہیں سکتا کبھی راستے میں رُک نہیں سکتا
اور اِس میں واپسی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی
محبت زندگی کا سفر ہے

پیر، 26 جنوری، 2015

محبت

محبت

محبت نہ کرنا انسان کے بس میں نہیں ہوتا
محبت کیوں کی
کی نہیں جاتی ہو جاتی ہے
اگر محبت دو فریقوں کے درمیان میں ہو
تو زندگی جنت اور اگر محبت کے شکنجے میں
ایک ہی انسان پھنس جائے تو دوسرا نہ کر پائے تو
زندگی جہنم سے کم نہیں 

محمد مسعود نونٹگھم یوکے
میڈوز

اتوار، 25 جنوری، 2015

ہمیں گہری نیند سونے دو

ہمیں گہری نیند سونے دو
محمد مسعود نونٹگھم یو کے



ہمیں گہری نیند سونے دو


آ جاؤ ہم حواسوں میں نہیں 
ہمارے سارے خواب نوچ لو 

ہمیں گہری نیند سونے دو

ہمیں کھونے دو
وہ ساری یادیں جو آتی ہیں ہمیں تیری
وہ ساری راتیں جو ہجر میں تیرے
ہمیں اب تھک کے چُور ہونے دو


ہمیں گہری نیند سونے دو
ہمیں گہری نیند سونے دو

اِے دل اِسے کبھی توبُھول جایا کرو

اِے دل اِسے کبھی تو بُھول جایا کرو
محمد مسعود نونٹگھم یو کے


اِے دل اِسے کبھی تو بُھول جایا کرو
دیکھنا وہ ایک دن تُجھے چھوڑ جائے گا



نہ اِسے اتنا تم ستایا کرو
اتنا اعتبار بھی اچھا نہیں ہوتا



شدتِ غم سے سینہ پھٹ جائے گا
آنکھ سے کچھ آنُسو بہایا کرو



اِس جیسا تُجھے کہیں مل نہیں سکتا
ہزار بار بھی رُوٹھے تو منایا کرو



یہاں بعد مُدت کوئی سُکھ ملتا ہے 
ہاتھ آئی خوشی یوں نہ گنوایا کرو










کچھ راز ہیں میرے سینے میں

کچھ راز ہیں میرے سینے میں
محمد مسعود نونٹگھم 


کچھ راز ہیں میرے سینے میں 
دن بہت کم ہیں میرے جینے میں



مجھے دھیرے دھیرے کہنے دو
مجھے اپنے دل میں رہنے دو 



میری بوجھل پلکیں کہتی ہیں 
مجھ کو یقین سچ کہتی ہیں



میں سب کچھ کھونا چاہتی ہوں
بس تیری بس تیری ہونا چاہتی ہوں



عجیب خواہش میں کھو جاؤں
تیری گود میں سر رکھ کے سو جاؤں



مجھ پر ایک احسان کر دو
ایک دن میرے نام کر دو



پھر نہ میں لوٹ کے آؤں گی
نہیں تجھ کو کبھی ستاؤں گی



کچھ راز ہیں میرے سینے میں 
دن بہت کم ہیں میرے جینے میں

ہفتہ، 24 جنوری، 2015

موسم بہار میں تنہا ہوۓ تو ہم رو پڑے

موسم بہار میں تنہا ہوۓ تو ہم رو پڑے
محمد مسعود نوٹیگم یو کے


موسم بہار میں تنہا ہوۓ تو ہم رو پڑے
ملے ملاۓ دوست کھوۓ تو ہم رو پڑے




بانہوں پہ سونے کی ایسی فطرت بنی
آج تنہا جب سوۓ تو ہم رو پڑے




جب دل غمگین ہوا ہم نے برداشت کی
آنکھوں نے آنسو پروۓ تو ہم رو پڑے




وہ سپنوں میں تو بہت خوش ہو گۓ
سپنوں کے اختتام ہوۓ تو ہم رو پڑے




اتنا عادی کیا کسی نےپھولوں کا مجھے
کسی نے کانٹے چھبوۓ تو ہم رو پڑے




سوچا تھا خوش دلی سے لکھیں گے غزل 
مگر قلم سیاہی میں جب ڈبوۓ تو ہم رو پڑے

چھوڑ دی تیری دنیا تیری خوشی کے لیے

چھوڑ دی تیری دنیا تیری خوشی کے لیے
محمد مسعود میڈوز نونٹگھم یو کے



چھوڑ دی تیری دنیا تیری خوشی کے لیے
جی سکیں گے نہ اب ہم اور کسی کے لیے




تیرا ملنا اور بچھڑنا ایک خواب تھا
تیری چاہت تو تھی دل لگی کے لیے




میرے آنگن میں ہر سو اندھیرا رہا
چراغ ڈھونڈا بہت روشنی کے لیے




اپنی قسمت میں اشکوں کی سوغات تھی
ہم تو ترستے رہے ایک ہنسی کے لیے




تیری جدائی سے بڑھ کر اور کیا غم ہو گا
مسعود زخم کافی ہیں یہی زندگی کے لیے

جمعہ، 23 جنوری، 2015

اچھا ہوا تو نہیں اُمید نہیں آس نہیں یاد نہیں

اچھا ہوا تو نہیں اُمید نہیں آس نہیں یاد نہیں
محمد مسعود نونٹگھم یو کے




اچھا ہوا تو نہیں اُمید نہیں آس نہیں یاد نہیں 
اب ہم تنہا ہوئے تو جینا سیکھ لیں گے ہم 



پہلے غم کی تشہیر کر دیا کرتے تھے ہم 
اب غموں کو تو پینا سیکھ لیں گے ہم



جن کے آنے پہ تم نظریں چرا بیٹھے ہو
جب اُنہوں نے وفا کی تو دیکھ لیں گے ہم



جل چکا ہے آشیانہ حفاظت کیا ہے ضرورت
ہم ہر بڑھتے ہوئے طوفان کو روگ لیں گے ہم 



پہلے کی طرح تیرے دھوکے میں نہ آئیں گے ہم 
اپنی منزل کے لیے خود ہی سوچ لیں گے ہم

تُجھے مناؤں تو مان جانا

میں اپنی راتوں کی فرصتُوں میں تُجھے 
مناؤں تو مان جانا

اگر کسی دن میں اپنے آنسُو بھی 
لے کے آؤں تو مان جانا



تو خوش نہیں ہے میری بقا پر تو صرف 
اتنا بتا دے مجھ کو


تیری خوشی کے لیے میں اگر سُولی پہ 
مسکراؤں تو مان جانا


تو بد گمان ہے میری وفا سے ایک بار 
تو آزما لے مجھ کو


جو ہار جاؤں تو لوٹ جانا 
جو جیت جاؤں تو مان جانا

سمندر سے پوچھو

سمندر سے پوُچھو
محمد مسعود نونٹگھم یو کے

سمندر کی لہروں سے پوُچھو ۔۔۔۔ پیار کیا ہے
کسی اجنبی سے کسی مسافر سے پُوچھو
کسی سے بھی پُوچھو کسی بھی طرح پُوچھو 

پیار کیا ہے

پیار ایک میٹھا موسم ہے
کبھی آنُسوؤں بھرتا ہے
کبھی مسکراہٹوں میں بھرتا ہے

پیار زندگی کی آباد گاہ ہے
جو کسی کے دل میں کسی کے لیے دھڑکتا ہے
پیار ایک پُر سُرور خوشبو ہے


جو دلوں میں سِمٹتا ہے مچلتا ہے
پیار نہ جانے پیار کیا ہے
حُسن زندگی جانے پیار کیا ہے




جمعرات، 22 جنوری، 2015

قیامت تین منٹ دور

قیامت تین منٹ دور
23/01/2015
محمد مسعود میڈوز نونٹگھم یو کے
بلیٹن آف اٹامک سائنٹسٹس نامی گروپ نے 'قیامت کی گھڑی' کو دو منٹ آگے بڑھادیا ہے جس کے بعد یہ آدھی رات سے صرف تین منٹ دور رہ گئی ہے۔
قیامت کی گھڑی کو 1947 میں بنایا گیا تھا۔ اسے 18 مرتبہ تبدیلی کیا جاچکا ہے۔ 1953 میں یہ گھڑی آدھی رات سے دو منٹ دوری پر تھی جبکہ 1991 میں یہ 17 منٹ دور کردی گئی تھی۔
یہ گھڑی 2012 سے آدھی رات سے پانچ منٹ کے فاصلے پر تھی تاہم اب اسے دو منٹ آگے کردیا گیا ہے اور اب یہ تین منٹ کی دوری پر رہ گئی ہے۔ آخری مرتبہ یہ 1983 میں اس پوزیشن پر آئی تھی جب امریکا اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ چل رہی تھی۔
گروپ کے ایگزیکیٹیو ڈائریکٹر کینٹ بینیڈکٹ نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی اور نیوکلیئر ہتھیاروں کی دوڑ اور بڑی تعداد میں موجود ان کے اثاثوں کی وجہ سے انسانی تہذیب کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کے رہنما شہریوں کو اس ممکنہ تباہی سے بچانے میں ناکام رہے ہیں۔
سائنسدانوں نے عوام سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنے رہنماؤں پر اس حوالے سے کارروائی پر زور ڈالیں تاکہ فاسل فیول سے پیدا ہونے والی آلودگی اور مختلف ممالک میں جاری نیوکلیئر دوڑ کو ختم کیا جاسکے جس سے پوری دنیا کو خطرہ ہے۔
بینیڈکٹ نے کہا کہ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ کوئی ایکشن لینے کے لیے وقت ختم ہوچکا ہے تاہم یہ جلد ختم ہوسکتا ہے، دنیا کو اپنی سستی سے نکل کر تبدیلیاں لانی ہوں گی۔
گروپ کے مطابق ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جن سے گرین ہاؤس گیسز کا اخراج محدود بنایا جاسکے تاکہ دنیا کا درجہ حرارت تیزی سے نہ بڑھے۔
گروپ کے ایک اور رکن رچرڈ سومرویل نے کہا کہ اب تک موسمیاتی تبدیلیوں کو روکنے کے لیے کیے گئے اقدامات ناکافی رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اگر جلد اس اخراج میں کمی نہ لائی گئی تو دنیا کے مختلف ممالک اس صدی کے اختتام تک اتنی گرین ہاؤس گیسز کا اخراج کرچکے ہوں گے کہ دنیا کو کافی حد تک تبدیل ہوچکا ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ 2014 اب تک کے ریکارڈ کے مطابق گرم ترین سال تھا۔
انہوں نے بتایا کہ آئندہ آنے والے دنوں میں ان تبدیلیوں کے باعث کروڑوں افراد متاثر ہوں گے اور اہم ایکالوجیکل سسٹمز متاثر ہوں گے جن پر انسانی زندگی انحصار کرتی ہے۔
سائنسدانوں نے نیوکلیئر ہتھیاروں پر خرچ کی جانے والی رقم میں ڈرامائی کمی کا بھی مطالبہ کیا۔
بینیڈکٹ نے کہا کہ دنیا میں اس وقت 16300 نیوکلیئر ہتھیار موجود ہیں جو ان کے مطابق بہت زیادہ ہیں۔
گروپ کی ایک اور رکن شرون سکیوسونی نے کہا کہ حالانکہ روس اور امریکا کے پاس سرد جنگ کے مقابلے میں اب کافی کم نیوکلیئر ہتھیار ہیں تاہم انہیں ختم کرنے کا عمل تقریباً رک چکا ہے۔

پیر، 19 جنوری، 2015

بہت سی باتیں بتانی ہیں تجھے

بہت سی باتیں بتانی ہیں تجھے
محمد مسعود

میرے گاؤں میں سمندر نہیں ہے
کچھ قطرے پانیوں کے قید ہیں
تالاب میں
جب بھی میں وطن واپس جاتا ہوں
تو ایک شام وہاں گزار دیتا ہوں
مسجد والے تالاب کی سیڑھیوں پر
تالاب کا پانی بدلتا نہیں کبھی
پانی قید ہے وہاں 
 شاید اسی لیے پہچانتا ہے مجھے
جب بھی میں جاؤں وہاں تو کہتا ہے
اچھا ہوا مسعود تو آ گیا 
بہت سی باتیں بتانی ہے تجھے 
اور پھر شروع ہو جاتا ہے
وہ فلاں کی دادی فوت ہو گی 
فلاں کے گھر بیٹا ہوا ہے
فلاں بابو کی نوکری چھوٹ گئی
مغرب کی طرف کا پیپل کا درخت کاٹ دیا
سڑک بنانے والوں نے
وغیرہ وغیرہ
پھر مجھ سے مخاطب ہو کر
پوچھتا ہے مسعود
اچھا یہ تو بتا شہر کے مزاج کیسے ہیں
کون بتاتا ہے تجھے خبریں شہر کی 
میں جواب دیتا ہو 
سمندر ہے نا  ڈھیر سارا پانی 
اور اتنا کہتے ہی 
ایک بگولا پانی کا
گلے میں اٹک جاتا ہے
خُدا حفظ کہہ کہ چلا آتا ہوں
واپس شہر میں
جہاں ایک بڑا سا سمندر ہے
روز سمندر کے کنارے بیٹھا
دیکھتا ہوں
کیسے سینکڑوں گیلن پانی 
بدل جاتے ہیں گزر جاتے ہیں
ایک آدھ قطرہ پانی کا
میری طرف بھی اچھال دیتا ہے سمندر
بس یوں ہی بغیر کسی جان پہچان کے 
اب روز بدلتے پانيوں  والا سمندر 
کیسے شناخت کر پائے گا مجھے
کیسے امید کروں اس سے
کہ وہ کہے گا مسعود
اچھا ہوا تو آ گیا
بہت سی باتیں بتانی ہیں تجھے 



رات گُزری اُن کے انتظار میں

رات گُزری اُن کے انتظار میں
محمد مسعود


رات گُزری اُن کے انتظار میں
اور آنُسو بہتے رہے پیار میں


تنہائی کی چادر تن سے لپٹے
بیھٹے رہے سانسوں کے منجدار میں 


تھا خامُوش منظر بدلا بدلا
دل بھی نہ تھا اختیار میں


وہ آئیں گے سوچتا رہا میں
کھلیں گی کلیاں پھر سے بہار میں


بے وجہ نکل پڑا تھا ایک دن مسعود
پیار ڈھونڈنے کے لیے اِس جہان میں


Poet: MOHAMMED MASOOD
NOTTINGHAM 
UK

ہفتہ، 17 جنوری، 2015

تم سے دور رہوں بھی مگر کیسے

تم سے دُور رہوں مگر کیسے
Tum Se Door Rahoon Magar Kaise
Poet: محمد مسعود نونٹگھم 



Tum Se Door Rahoon bhi Magar Kaise
Haal-E-Dil  Kahoon bhi Magar Kaise
تم سے دُور رہوں بھی مگر کیسے
حالِ دل کہوں بھی مگر کیسے


 
Bahut Samjhaya Is Pagal Dil Ko 
Dil Ko Mazboor Karoon bhi Magar Kaise
بہت سمجھایا اِس پاگل دل کو 
دل کو مجبُور کروں بھی مگر کیسے



Kuchh Toh Kahtay Hain Aankho Se Woh Bhi
Woh Baat Kagaz Par Likoon bhi Magar Kaise
کُچھ تو کہتے ہیں آنکھوں سے وہ بھی
وہ بات کاغذ پر لکھوں بھی مگر کیسے



Waqt Ki Lahron Se Main Waakif Toh Hoon
Waqt Ke Safar Ko Samjhun bhi Magar Kaise
وقت کی لہروں سے میں واقف تو ہوں 
وقت کے سفر کو سمجھاؤں بھی مگر کیسے



Har Gham Uttha Lenge Saath Jo Tum Ho
Tum Bin Khud Ko Sochun bhi Magar Kaise
ہر غم اُٹھا لیں گے ساتھ جو تم ہو 
تم بن خُود کو سوچوں بھی مگر کیسے



Tum Se Door Rahoon bhi Magar Kaise
Haal-E-Dil  Kahoon bhi Magar Kaise 
تم سے دُور رہوں بھی مگر کیسے
حالِ دل کہوں بھی مگر کیسے

جمعرات، 15 جنوری، 2015

انسان کی مُورت

انسان پیار کی مُورت

ضروری تو نہیں کہ انسان پیار کی مُورت ہو
ضروری تو نہیں کہ انسان 
اچھا اور بہت ہی خُوبصورت ہو
پر سب سے اچھا انسان وہ ہے
جو آپ کے ساتھ ہو جب آپ کو اُس کی 
ضرورت ہو

محمد مسعود نونٹگھم  یو کے


بدھ، 14 جنوری، 2015

بیٹی

 بیٹی 
تحریر محمد مسعود میڈوز نونٹگھم یو کے  

بیٹی ایک ماں ایک بہن ایک دوست ایک رازدار کا امتزاج ہوتی ہے
یہ ایک کشمیرالجہت رِشتہ ہے گھر میں صرف اسکی موجودگی ہی رنگ اور خوشبو بھر دیتی ہے
جب تک غیر شادی شدہ ہوتی ہے بیٹی ایک ہمہ وقت شادمانی ہوتی ہے والدین کیلئے ہنسے کھیلنے والی گڑیا ہوتی ہے
وہ ماں سے رشتی کی وسعت ہوتی ہے اور باپ کی ہمہ وقت خبرگیری کرتی ہے وہ اپنی تھکی ماندی ماں کا ہاتھ بٹاتی ہے اوراپنے باپ کی پیشانی پر اُنس و محبت بھرا ہاتھ اسکے گھر واپس آنے پررکھتی ہے
جب آپ خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں
جب آپ مایوس ہوں تو آپکو گلے لگا کرشادمانی سے مسکراتی ہے جب آپ اپنی صحت کو نظر انداز کرتے ہیں تو پیار بھری ڈانٹ پلاتی ہے
وہ آپکو اپنے محبت بھری انداز سے حیران کر تی ہے  جب بیٹی بیاہی جاتی ہے تواسکی اُداس نگاہیں بتاتی ہیں 
کہ
وہ آپکو کتنا یاد کرتی ہے اور وہ ہمیشہ مشکل وقت میں آپ کے ہمراہ ہوتی ہے  آپ جانتے ہیں کہ صرف وہ ہی ایک ایسا رِشتہ ہے 
جو دیگر تمام  رِشتے داروں کو پسِ پشت ڈال دے گی جب آپکو اُس کی  ضرورت ہو گی 


محمد مسعود میڈوز نونٹگھم یو کے

Bati 
Mohammed Masood 

کبھی تم مجھے قریب سے آ کر دیکھنا

کبھی تم مجھے قریب سے آ کر دیکھنا
Kabhi tum mujhe kareeb se aa k dekhna
محمد مسعود
M MASOOD
NOTTINGHAM UK

Kabhi tum mujhe kareeb se aa k dekhna
Aise nahi jara aur paas aa ke dekhna
کبھی تم مجھے قریب سے آ کر دیکھنا
ایسے نہیں زرا اور پاس آکر دیکھنا


Main tum se kitna pyar karta hoon
Mujhe kbhi seene se laga kar dekhna
میں تم سے کتنا پیار کرتا ہوں
مجھے کبھی سینے سے لگا کر دیکھنا

Main tumhe ashko ki kataar me najar aaunga
Meri yaad me kabhi aansu baha ke dekhna
میں تمہیں اشکوں کی قطار میں نظر آؤں گا
میری یاد میں کبھی آنسُو بہا کے دیکھنا 

Meri ghazal pad kar bhi tum par asar na ho
Toh logo ko meri ghazal suna ke dekhna
میری غزل پڑھ کر بھی اثر نہ ہو مسعود 
تو لوگوں کو میری غزل سُنا کے دیکھنا


بیوٹی پارلر کا کاروبا اسلام کی روح میں

بیوٹی پارلر کا کاروبار 
محمد مسعود نوٹنگھم یو کے 



آج کل بیوٹی پارلر کا کاروبار خطرناک حد تک مسلم ممالک میں زور پکڑتا جا رہا ہے۔ اور جہاں تک بیوٹی پارلر کی بات ہے ان پارلرز میں موسیقی ہر وقت چلائی جاتی ہے جو کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کی خلاف ورزی ہے ۔ اور اسلام نے عورتوں کو بہت ساری سجنے سنورنے کے حوالے سے احکامات بتائے ہیں لیکن ان پارلرز میں عورتیں اپنی پلکوں کو نوچواتی ہیں جو کہ اسلام ان چیزوں کو سختی سے منع کرتا ہے۔

ان بیوٹی پارلرز میں کسی بھی قسم کا پردہ نہیں کیا جاتا اور عورتیں ایک دوسرے کے سامنے بغیر پردے کے کام کرتی ہیں ۔ اور زیادہ تر بیوٹی پارلرز میں اسلام کے اصولوں کو مدنظر نہیں رکھا جاتا ۔ کیونکہ اسلام نے عورت کو صرف اور صرف اپنے شوہر کے لیے سجنے سنورنے کا حکم دیا ہے اور عورت کو خوشبو لگا کر گھر سے باہر نکلنے سے منع فرمایا ہے لیکن ان پارلرز میں عورتیں سجنے سنورنے کے علاوہ نہ تو وہ پردہ کرتی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ خوشبو لگا کر بازاروں میں گھومتی پھرتی ہیں۔

ان پارلرز میں عورتیں مردوں کا روپ دھار کر سجتی سنورتی ہیں حالانکہ نبی کریم ﷺ نے جو عورتیں مردوں کا روپ دھاریں اور جو مرد عورتوں کی مشابہت اختیار کریں تو ایسے مرد عورتوں پر لعنت کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ بہت ساری عورتیں مصنوعی بال لگواتی ہیں جو کہ اسلام میں منع ہیں ۔

ہمارے معاشرے میں حرام حلال کی تمیز ختم ہوتی جارہی ہے اور بغیر کسی سوچ سمجھ کے کوئی بھی کاروبار شروع کر دیا جاتا ہے اور یہ چیز نہیں دیکھی جاتی کہ یہ کاروبار حلال ہے بھی یا نہیں ۔ اسی طرح بیوٹی پارلرز کا کاروبار بھی ٹھیک نہیں ہے ۔کیونکہ اس میں زیادہ تر کام اسلام کے اصولوں اور اقدار کے منافی ہے۔

اورحضور اکرم ﷺ فرمان اور اسلام کے تمام واضح اصولوں کے مطابق اور عالم اور قاضی کے فتووں کے مطابق جو عورت اپنے پلکوں کی اکھاڑے اور بنھووں کے بال اتروائے اور دانتوں کے درمیان مصنوعی خلا کہ تاکہ خوبصورت نظر آئے وغیرہ کروائے تو ایسی عورتوں پر لعنت کی گئی ہے۔

اسلام نے زندگی گزارنے کے اور حلال و حرام کی تمیز ہر انسان کو بتائی ہے ۔لیکن اس کے باوجود جو یہ کام کرتا ہے کیونکہ جو انسان خود برائی کرے اور دوسروں کو بھی برائی کی تلقین کرے تو وہ یاد رکھے کہ وہ اپنے گناہوں کا تو بوجھ اٹھائے گا ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس برائی کی تلقین کرنے والے کے گناہوں کا بوجھ بھی اپنے سر لے گا 

بیوٹی پارلر کا کاروبار
اور
سوال اور اِس کا جواب


کیا بیوٹی پارلر کا کاروبار کرنا اور اس میں کام کرنا کیسا ہے؟
موضوع: جدید فقہی مسائل  |  حجامت 
سوال پوچھنے والے کا نام: فیصل اکرام       مقام: نواب شاہ، سندھ
سوال نمبر 1472:
السلام علیکم کیا بیوٹی پارلر کا کاروبار کرنا اور اس میں کام کرنا کیسا ہے؟
جواب:
بیوٹی پارلر کا کاروبار کرنا یا اس میں کام کرنا دونوں جائز ہیں۔ شرعاً اس کے ناجائز ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے، مگر اس میں خیال رکھا جائے گا کہ اگر بیوٹی پارلر میں خواتین کام کرنے والی ہوں اور فقط خواتین ہی بناؤ سنگھار کے لیے آئیں، دلہن کو تیار کریں یا میک اپ کروانے آئیں تو ٹھیک ہے۔ یعنی پارلر میں کام کرنے والی بھی خواتین ہوں اور میک اپ وغیرہ کے لیے بھی صرف خواتین ہی آئیں۔
دوسری صورت میں مرد و خواتین میں اختلاط ہو یعنی خواتین مردوں کے لیے کام کریں یا مرد خواتین کا میک اپ کریں تو ایسا کرنا حرام ہے۔ ایسی جگہ پر کام کرنا اور ایسا کاربار کرنا دونوں حرام ہیں۔ اس کے علاوہ بیوٹی پارلر پر خلاف شریعت اگر کوئی کام لیا جائے تو پھر بھی یہ ناجائز اور حرام ہوگا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
مفتی: حافظ محمد اشتیاق الازہری
تاریخ اشاعت: 2012-03-06

گھر چھوڑ کر

گھر چھوڑ کر
چلا ہوں گھر کو چھوڑ کر نہ جانے جاؤں گا کدھر
کوئی نہیں جو ٹوک کر کوئی نہیں جو روک کر
کہے کہ لوٹ آئیے میری قسم نہ جائیے

محمد مسعود

خوشی اور غم

خوشی اور غم
تحریر محمد مسعود نونٹگھم یو کے
خوشی اور غم انسانی زندگی کا حصہ ہوتے ہیں انسان اگر یہ چاہی کے اس کی زندگی میں ہمیشہ ہی خوشی رہے اسے کبھی غم کا کوئی سایہ نہ ہو تو ایسا ہونا نہ ممکن ہی ہے کیوں کہ خوشی کے ساتھ غم کل ہونا بھی انسان کی زندگی کا حصہ ہوتا ہے . اگر انسان کی زندگی میں خوشی ہی خوشی ہی ہو تو انسان اپنے رب کو کبھی یاد نہ کرے کیوں کے انسان نام ہی اسی چیز کا ہے خطا کا پتلا اسی لئے انسان کی زندگی میں جب جب کوئی خوشی ملے اسے چاہے کے اپنے رب کا شکر ادا کرے جس نے اسے خوشی دی لیکن جب کبھی کوئی غم ملے تو اس پر بھی صبر کرے کیوں کہ میرا رب اپنے بندے پر اس کی بساط سے زیادہ وزن نہیں ڈالتا کیوں کہ وہ سب ہی جانتا ہے خوشی اور غم دونوں ہی اس کے ہاتھ میں ہیںانسان کسی بھی چیز کی خوشی میں زیادہ خوش نہیں رہ سکتا کیوں کہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے یہ بات بھی کہ وہ کسی بھی ایک خوشی میں بہت دائر تک خوش نہیں رہ سکتا یہ سب ایک فرضی چیز ہوتی ہے جیسا کے مجھے اگر کوئی خوشی ملے تو میں کش دائر یا کش دن تک اس کی خوشی محسوس کروں گا اس کے بعد بھول جاؤں گا اسی طرح جب انسان کی زندگی بھی کبھی باقی نہیں رہنے والی تو اسے یہ نہیں سوچنا چاہے کہ اس کے غم ہمیشہ اس کے ساتھ راہیں گے

تحریر محمد مسعود نونٹگھم یو کے

خوشی اور غم

خوشی اور غم
محمد مسعود میڈوز نونٹگھم یو کے


خوشی اور غم زندگی کی وہ کیفیات ہیں جو ہر انسان پریکے بعد دیگرے طاری ہوتی رہتی ہیں کوئی بھی انسان نہ تو ہمیشہ خوش رہتا ہے اور نہ ہی ہمیشہ اداس جس طرح دن اور رات کا سلسلہ ازل سے جاری ہے اور تا ابد قائم رہے گا اِسی طرح جب تک یہ زندگی ہے ہر ذی حیات انسان کو کسی نہ کسی صورت خوشی اور غم کی کیفیات سے واسطہ بھی رہے گا جس طرح نہ ہی ہر وقت دن رہتا ہے اور نہ ہی رات اسی طرح انسان بھی نہ تو ہمیشہ خوش رہتا ہے اور نہ ہی ہمیشہ اداس یہ خوشی اور غم ہی ہے جوانسان کو اداسی یا مسرت سے دوچار کرتی رہتی ہے اب یہ انسان پر ہے کہ وہ ان دونوں کیفیات میں اپنی شخصیت کا توازن کس طرح برقرار رکھتا ہے۔
خوشی کے لمحات میں اللہ کریم کا شکر ادا کرنا چاہیئے اور غم کے لمحات میں صبر بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے سوگواریت کو اپنے اوپر طاری نہیں کرنا چاہیئے کہ یہ پھر مایوسی کی علامت ہے۔ خود بھی خوش رہیں اور دوسروں کو بھی خوش رکھیں۔

اللہ کرہم سب کو خوش اور آباد رکھے۔آمین
   

     محمد مسعود میڈوز نونٹگھم یو کے

تو الفاظوں کی طرح مجھ سے کتابوں میں ملا کر

تو الفاظوں کی طرح مجھ سے کتابوں میں ملا کر
Tu lafzon ki tarha mujh se kitabon mein mila kar
Poet: M MASOOD
Nottingham UK 


Tu lafzon ki tarha mujh se kitabon mein mila kar
Logon ka tujhe dar hai tu khawabon mein mila kar
تو الفاظوں کی طرح مجھ سے کتابوں ملا کر
لوگوں کا تجھے ڈر ہے تو خوابوں ملا کر

Phool ka khushboo se taluk hain zaruri
Tu mehak ban kar mujh se gulabon mein mila kar
پھول کا خوشبو سے تعلق ہے ضروری
تو مہک بن کر مجھ سے گلابوں ملا کر

Jise chhu kar main mehsoos kar saku
Tu masti ki tarha mujh se sharabon mein mila kar
جسے چھو کر میں محسوس کر سکوں
تو مستی کی طرح مجھ سے صحرابوں میں ملا کر

Main bhi insan hu, hai dar mujhko bhi behakne ka
Is waaste tu mujh se hijabon mein mila kar
میں بھی انسان ہوں ہے ڈر مجھ کو بھی بہکنے کا 
اِس واسطے تو مجھ سے حجابوں میں ملا کر   


شاعر محمد مسعود میڈوز نونٹگھم یو کے
MOHAMMED MASOOD NOTTINGHAM 
UK