اتوار، 29 نومبر، 2015
صدقے جاؤں
بدھ، 25 نومبر، 2015
پیر، 23 نومبر، 2015
خوش رہو اور لمبی زندگی پاؤ
خوش رہو اور لمبی زندگی پاؤ
محمد مسعود میڈوز نونٹگھم یو کے
بظاھر میں یہ ایک دعا ہے کہ ہمیشہ خوش رہو اور لمبی زندگی پاؤ . جگ جگ جیو .. ہمیشہ مسکراتے رہو .. لیکن حقیقت میں اگر کوئی بندہ اس پر عمل کرتا ہے یا اسے اس دعا کا اثر ہو جاتا ہے . تو سچ میں ہی اس کی زندگی میں اضافہ ہو جاتا ہے . اس بات کی تحقیق آج کی سائنس نے بھی کر دی ہے . ایک نئی تحقیق کے مطابق یہ بات سامنے ہے ہے کہ کوئی بھی خوشی انسان کی زندگی میں اضافہ کر دیتی ہے . انسان کو خوشی اس کی عمر میں ٧ سے ١٠ سال تک کا اضافہ کر دیتی ہے
یہ تحقیق ہالینڈ کے ایک سائنس دان نے دی ہے . اس نے اس قسم کی تحقیق پر ایک بہت وقت گزارا ہے اور اس کے بعد اسے نے اس بات کو ثابت کر دیا ہے کے انسان کو کوئی بھی خوشی کی اس کی زندگی میں اضافہ کا سبب بنتی ہے لیکن ابھی اس بات پر تحقیق جاری ہے کہ ایسا کیوں اور کیسے ہوتا ہے ؟ یعنی کے انسان کو کوئی بھی خوشی تو مل جاتی ہے لیکن وہ خوشی اس پر کیسے عمل کرتی ہے . اسے کس طرح اس کی عمر میں اضافہ کا سبب بنتی ہے
اتوار، 22 نومبر، 2015
تنہائی
اُبلا انڈا
اُبلا انڈا
محمد مسعود نونٹگھم یو کے
یہ واقع تقریباً 1988 کا ہے اور نومبر یا دسمبر تھا پوری سردی آدھے کپڑے اِک غربت کا مارا بچہ اُبلے انڈے بیچ رہا تھا ٹھٹھری ہوئی آواز جب اُس کی میری کار کے اندر آئی میں جو اِس پوری سردی میں پورے کپڑے پہنے اپنی کار کے ہیٹر کے آگے تھا میں نے بھی اِک اُبلا انڈا گرم فضا میں بیٹھ کے کھایا جو اُس پیارے سے بچے نے سرد ہوا میں سڑک کنارے بیٹھے اور اپنے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے چھیلا تھا پیسے دیتے دیتے میں نے اُس بچے کو غور سے دیکھا پوری سردی آدھے کپڑے اُف نیلے ہونٹوں والا بچہ سرد ہوا میں کانپ رہا تھا بچپن اُس کا ہانپ رہا تھا میں نے اُس کی حالت دیکھی
ہفتہ، 21 نومبر، 2015
اچھے لوگ
میں افسانے اور شعر و شاعری کیونکر لکھتا ہوں
تحریر محمد مسعود نونٹگھم یو کے
اب کیسے ‘ کا سوال آئے تو میں یہ کہوں گا کہ میں ویسے ہی افسانے اور شاعری لکھتا ہوں جس طرح کھانا کھاتا ہوں، غسل کرتا ہوں، سگریٹ پیتا ہوں معاف کرنا کبھی پیتا تھا اور جھک مارتا ہوں۔ اگر یہ پوچھا جائے کہ میں افسانے کیوں لکھتا ہوں تو اس کا جواب حاضر ہے… میں افسانہ اول تو اس لیے لکھتا ہوں کہ مجھے افسانہ نگاری کی چائے کی طرح لت پڑ گئی ہے۔ میں افسانہ نہ لکھوں تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں نے کپڑے نہیں پہنے یا میں نے غسل نہیں کیا۔ یا میں نے چائے نہیں پی۔ میں افسانے نہیں لکھتا۔ حقیقت یہ ہے کہ افسانے مجھے لکھتے ہیں میں بہت کم پڑھا لکھا آدمی ہوں۔ لیکن مجھے بعض اوقات حیرت ہوتی ہے کہ یہ کون ہے جس نے اس قدر اچھے افسانے لکھے ہیں شعر ؤ شاعری لکھی جن پر آئے دن لوگ کہتے ہیں کہ مسعود صاحب کیا بات ہے کیا واقع یہ آپ نے لکھا ہے جب قلم میرے ہاتھ میں نہ ہو تو میں صرف محمد مسعود ہوتا ہوں۔ جسے اردو آتی ہے نہ فارسی، انگریزی نہ فرانسیسی۔ افسانہ میرے دماغ میں نہیں، جیب میں ہوتا ہے، جس کی مجھے کوئی خبر نہیں ہوتی۔ میں اپنے دماغ پر زور دیتا ہوں کہ کوئی افسانہ نکل آئے، افسانہ نگار بننے کی بھی بہت کوشش کرتا ہوں۔ چائے پہ چائے پیتا ہوں
مگر افسانہ دماغ سے باہر نہیں نکلتا۔ آخر تھک ہار کر بانجھ عورت کی طرح لیٹ جاتا ہوں۔ اس لیے بڑی کوفت ہوتی ہے۔ کروٹیں بدلتا ہوں۔ اٹھ کر اپنی چڑیوں کو دانے ڈالتا ہوں۔ بیٹے وقاص اور اپنی بیٹی ہما سے اور اپنی پوتی عنائیہ سے باتیں کرتا ہوں گھر کا کوڑا کرکٹ صاف کرتا ہوں… جوتے…ننھے منے جوتے جو گھر میں جا بجا بکھرے ہوتے ہیں۔ اٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ رکھتا ہوں… مگر کم بخت افسانہ جو میری جیب میں پڑا ہوتا ہے، میرے ذہن میں نہیں اترتا… اور میں تلملاتا رہتا ہوں۔ جب بہت زیادہ کوفت ہوتی ہے تو باتھ روم میں چلا جاتا ہوں۔ مگر وہاں سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ سنا ہوا ہے کہ ہر بڑا آدمی غسل خانے میں سوچتا ہے لیکن مجھے تجربے سے یہ معلوم ہوا ہے کہ میں بڑا آدمی نہیں ہوں، اس لیے کہ میں غسل خانے تک میں نہیں سوچ سکتا… لیکن حیرت ہے کہ پھر بھی کافی اچھا لکھ لیتا ہوں یہ میں نہیں کہتا آپنے چاہنے والوں کی داد سے پتہ چلتا ہے جو میری شاعری اور افسانوں کو بہت پیار ؤ محبت سے پڑتے اور بہت سارا پیار بھی نچھاور کرتے ہیں اور زیادہ دیر دُور رہو تو پُوچھ بھال بھی کرتے ہیں اور زیادہ دیر دُور نہیں رہنے دیتے
میں خدا کو حاضر ناظر رکھ کے کہتا ہوں کہ مجھے اس بارے میں کوئی علم نہیں کہ میں افسانہ کیونکر لکھتا ہوں اور شعر و شاعری کیسے لکھتا ہوں۔ اکثر اوقات ایسا ہوا ہے کہ جب میں زچ بچ ہوگیا ہوں۔ تو میرا دل کہتا ہے مجھ سے یہ آپ سوچئے نہیں، قلم اٹھائیے اور لکھنا شروع کر دیجیئے میں اس کے کہنے پر قلم یا پنسل اٹھاتا ہوں اور لکھنا شروع کر دیتا ہوں دماغ بالکل خالی ہوتا ہے، لیکن جیب بھری ہوتی ہے خود بخود کوئی افسانہ اچھل کے باہر آجاتا ہے۔ میں خود کو اس لحاظ سے افسانہ نگار نہیں، جیب کترا سمجھتا ہوں جو اپنی جیب خود بھی کاٹتا ہے اور آپ کے حوالے کردیتا ہے۔
مجھ ایسا بھی بے وقوف دنیا میں کوئی اور ہوگا۔
بس میں ایسا ہی ہوں
جمعہ، 20 نومبر، 2015
دُکھوں کی چادر جفا کا تکیہ
جمعرات، 19 نومبر، 2015
محبت میں جو ڈوبا
بدھ، 18 نومبر، 2015
درد کی دولت
مریض کتنے تڑپتے ہیں
محمد مسعود نونٹگھم یوکے
منگل، 17 نومبر، 2015
مصروف زندگی
پیر، 16 نومبر، 2015
کفن بھی کیا چیز ہے
اتوار، 15 نومبر، 2015
اپنی پروفائل پر فرانس کا جھنڈا ہی کیوں
ہفتہ، 14 نومبر، 2015
درد تو مُجھے ہی ہو گا
راتوں کا درد
جمعرات، 12 نومبر، 2015
شفیق اُستاد
نئے استاد نے سبق کی تشریح کر چکنے کے بعد، ایک طالبعلم سے سوال پوچھا۔
اس طالبعلم کے ارد گرد بیٹھے دوسرے سارے طلباء ہنس پڑے۔ استاد کو اس بلا سبب ہنسی پر بہت حیرت ہوئی، مگر اس نے ایک بات ضرور محسوس کر لی کہ کوئی نا کوئی وجہ ضرور ہوگی۔
طلباء کی نظروں، حرکات اور رویئے کا پیچھا کرتے آخرکار استاد نے یہ نکتہ پا لیا کہ یہ والا طالبعلم ان کی نظروں میں نکما، , احمق، پاگل اور غبی ہے، ہنسی انہیں اس بات پر آئی تھی کہ استاد نے سوال بھی پوچھا تو کسی پاگل سے ہی پوچھا۔
جیسے ہی چھٹی ہوئی، سارے طلباء باہر جانے لگے تو استاد نے کسی طرح موقع پا کر اس طالب کو علیحدگی میں روک لیا۔ اسے کاغذ پر ایک شعر لکھ کر دیتے ہوئے کہا، کل اسے ایسے یاد کر کے آنا جیسے تجھے اپنا نام یاد ہے، اور یہ بات کسی اور کو پتہ بھی نا چلنے پائے۔
دوسرے دن استاد نے کلاس میں جا کر تختہ سیاہ پر ایک شعر لکھا، اس کے معانی، مفہوم، ابلاغ اور تشریح بیان کر کے شعر مٹا دیا۔ پھر طلباء سے پوچھا؛ یہ شعر کسی کو یاد ہو گیا ہو تو وہ اپنا ہاتھ کھڑا کرے!
جماعت میں سوائے اس لڑکے کے ہچکچاتے، جھجھکتے اور شرماتے ہوئے ہاتھ کھڑا کرنے کے اور کوئی ایک بھی ایسا لڑکا نا تھا جو ہاتھ کھڑا کرتا۔ استاد نے اسے کہا سناؤ، تو لڑکے نے ازبر یاد کیا ہوا شعر سنا دیا۔
استاد نے لڑکے کی تعریف کی اور باقی سارے لڑکوں سے کہا اس کیلئے تالیاں بجائیں۔ سارے طالبعلم حیرت و استعجاب سے دیدے پھاڑے اس لڑکے کو دیکھ رہے تھے۔
اس ہفتے وقفے وقفے سے، مختلف اوقات میں اور مختلف طریقوں سے ایسا منظر کئی بار ہوا، استاد لڑکے کی تعریف و توصیف کرتا اور لڑکوں سے حوصلہ افزائی کیلئے اس کیلئے تالیاں بجواتا۔
دوسرے طلباء کی نظریں، رویہ اور سلوک اس کے ساتھ بدلنا شروع ہو گیا۔
اس طالب نے بھی اپنے آپ کو بہتر اور افضل سمجھنا شروع کر دیا، اپنی ذات پر بھروسہ کرنے لگا، غبی اور پاگل کی سوچ سے باہر نکل کر عام طلباء بلکہ بہتر کی جانب بڑھنا شروع ہو گیا۔ اپنی صلاحیتوں کو بہتر استعمال کرنے لگا، پر اعتماد ہوا، دوسروں جیسا پڑھنے لگا بلکہ دوسروں کے ساتھ مقابلے میں آنے لگا۔
امتحانات میں خوب محنت کی، اپنے آپ کو ثابت کیا اور اچھے نمبروں سے پاس ہو گیا۔ اگلی جماعتوں میں اور بہتر پڑھا، یونیورسٹی تک پہنچا، آجکل پی ایچ ڈی کر رہا ہے۔
یہ ایک اخبار میں چھپنے والا شخصی قصہ ہے جس میں ایک شخص اس ایک شعر کو اپنی کامیابی کی سیڑھی قرار دے رہا ہے جو ایک شفیق استاد نے چپکے سے اسے یاد کرنے کیلئے لکھ کر دیدیا تھا۔
محمد مسعود کا کہنا یہ ہے کہ
لوگ دو قسم کے ہوتے ہیں:
ایک قسم ان لوگوں کی ہوتی ہے جو خیر کی کنجیوں کا کام کرتے ہیں، شر کے دروازے بند کرتے ہیں، حوصلہ افزائی کرتے ہیں، داد دیتے ہیں، بڑھ کر ہاتھ تھامتے ہیں، اپنی استطاعت میں رہ کر مدد کر دیتے ہیں، دوسروں کے شعور اور احساس کو سمجھتے ہیں، کسی کے درد کو پڑھ لیتے ہیں، مداوا کی سبیل نکالتے ہیں، رکاوٹ ہو تو دور کر دیتے ہیں، تنگی ہو آسانی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ترشی ہو تو حلاوت گھولنے کی کوشش کرتے ہیں، مسکراہٹ بکھیرتے ہیں، انسانیت کو سمجھتے ہیں، انسانیت کی ترویج کر دیتے ہیں، کسی کی بیچارگی کو دیکھ کر ملول ہوتے ہیں اور اپنے تئیں چارہ گری کی سبیل کرتے ہیں، ابتداء کرتے ہیں، ایجاد کرتے ہیں، ساتھ دیتے ہیں، مل کر کھاتے ہیں، دکھ بانٹتے ہیں، درد سمجھتے ہیں۔
دوسری قسم کے لوگ اس کے برعکس شر کا دروازہ کھولنے والے، قنوطیت اور یاسیت کو پروان چڑھانے والے، چلتوں کو روکنے والے، سامنے پتھر لڑھکانے والے، حوصلوں کو پست کرنے والے، منفی رویوں کی ترویج اور اجاگر کرنے والے، شکایتوں کے پلندے اٹھائے، نصیبوں کرموں اور تقدیروں کو رونے والے، راستے بند اور راستوں میں کھونٹے گاڑنے والے۔
آپ معلم ہیں، والد ہیں، والدہ ہیں، استاد ہیں، قائد ہیں، یا ایک عام شہری ہیں؛ ایک سوال ہے آپ سے: کیا آپ اپنی قسم بیان کر سکتے ہیں؟
دسمبر
لالچ بُری بلا
بدھ، 11 نومبر، 2015
شعلہ اور شبنم
شعلہ اور شبنم
اس زمیں آسماں کی خیر نہیں آج اُس کا مزاج برہم ہے
سب دئیے اُس کے سامنے گُل ہیں کون شعلہ ہے کون شبنم ہے
گاؤں بارش میں سلامت ہیں نگر ڈوب گئے
گاؤں بارش میں سلامت ہیں نگر ڈوب گئے
جو بلندی پہ بنے تھے وہی گھر ڈوب گئے
دیکھتے دیکھتے سارے ہی شجر ڈوب گئے
اب جہاں کس سے اجالے کی لگائے امید
بحر تاریکی میں خود شمس و قمر ڈوب گئے
ان سفینوں کے مقدّر پے بھنور بھی ہے اداس
آ گئے تھے جو کناروں پہ مگر ڈوب گئے
ایک سیلاب سا دنیائے ادب میں آیا
کم نظر زندہ رہے اہل نظر ڈوب گئے
خوش ہیں رہگیر کناروں پہ کسے اس کا ہوش
ساتھ کچھ اور بھی تھے جانے کدھر ڈوب گئے
پیاس بھی خوب تھی کہ بڑھتی ہی رہی
جام صہبا میں میرے شام و سحر ڈوب گئے
منگل، 10 نومبر، 2015
پیر، 9 نومبر، 2015
اتوار، 8 نومبر، 2015
میں کتنا عجیب ہوں
تمہاری یاد
جمعرات، 5 نومبر، 2015
جُدائی کے معنی
اُس نے پوچھے تھے جدائی کے معنی مجھ سے
بدھ، 4 نومبر، 2015
خاموشی
خالی گھر
دور تجھ سے گزری جو ہر گھڑی لکھ رہا ہوں
بوڑھے والدین
دیا ( چراغ )
Aandhiyon main diya jalaana tha