اتوار، 29 نومبر، 2015

صدقے جاؤں

صدقے جاؤں مُجھ بیمار سے کہتے ہیں پڑے رہو
اور لوگوں سے پوچھتے ہیں کیسا ہے مسعود

محمد مسعود نونٹگھم یو کے

بدھ، 25 نومبر، 2015

طعنہ

کمال کا طعنہ دیا ہے آج کسی نے مسعود 
اگر وہ تیرا ہے تو تیرے پاس کیوں نہیں

محمد مسعود نونٹگھم یو کے 


پیر، 23 نومبر، 2015

خوش رہو اور لمبی زندگی پاؤ

خوش رہو اور لمبی زندگی پاؤ 

محمد مسعود میڈوز نونٹگھم یو کے



بظاھر میں یہ ایک دعا ہے کہ ہمیشہ خوش رہو اور لمبی زندگی پاؤ . جگ جگ جیو .. ہمیشہ مسکراتے رہو .. لیکن حقیقت میں اگر کوئی بندہ اس پر عمل کرتا ہے یا اسے اس دعا کا اثر ہو جاتا ہے . تو سچ میں ہی اس کی زندگی میں اضافہ ہو جاتا ہے . اس بات کی تحقیق آج کی سائنس نے بھی کر دی ہے . ایک نئی تحقیق کے مطابق یہ بات سامنے ہے ہے کہ کوئی بھی خوشی انسان کی زندگی میں اضافہ کر دیتی ہے . انسان کو خوشی اس کی عمر میں ٧ سے ١٠ سال تک کا اضافہ کر دیتی ہے 





یہ تحقیق ہالینڈ کے ایک سائنس دان نے دی ہے . اس نے اس قسم کی تحقیق پر ایک بہت وقت گزارا ہے اور اس کے بعد اسے نے اس بات کو ثابت کر دیا ہے کے انسان کو کوئی بھی خوشی کی اس کی زندگی میں اضافہ کا سبب بنتی ہے لیکن ابھی اس بات پر تحقیق جاری ہے کہ ایسا کیوں اور کیسے ہوتا ہے ؟ یعنی کے انسان کو کوئی بھی خوشی تو مل جاتی ہے لیکن وہ خوشی اس پر کیسے عمل کرتی ہے . اسے کس طرح اس کی عمر میں اضافہ کا سبب بنتی ہے

ایک طرف تو یہ تقیق ہو چکی ہے کے خوشی انسان کی زندگی میں اضافہ کرتی ہے لیکن دوسری طرف وہ اس بات کے کھوج میں لگے ہوے ہیں کہ خوشی انسان کو کن چیزوں سے ملتی ہے وہ کون سے اسباب ہیں جو انسان کو خشی دے سکتے ہیں . کیوں کے بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کے پاس بی پناہ دولت اسباب کے بعد بھی وہ خوشی سے محروم ہیں اسی طرح خوشی ان چیزوں سے حاصل نہیں ہوتی ایک حد تک ان چیزوں کی خوشی دیتی ہے اس سے زیادہ ہونے پے یہ خوشی فراہم نہیں کر سکتی . اسی طرح خوشی انسان کو رشتوں سے ، دوستوں اور قانون کے سہی ہونے سے بھی حاصل ہوتی ہے .. لیکن جو بھی ہے میری تو آپ سب کو دعا ہے کہ ہیمشہ خوش رہو ....اور لمبی زندگی پاؤ آخر میں میرے لیے والدین کے لیے اور میری ساری فیملی کے لیے دُعا کریں اور میں آپ کے لیے 
آمین ثم آمین 

یادیں

یادیں کیوں نہیں بچھڑ جاتی مسعود 
لوگ تو پل  بھر میں  بچھڑ جاتے ہیں 

محمد مسعود نونٹگھم یو کے

اتوار، 22 نومبر، 2015

تنہائی

بتاؤ مُجھے میں تنہائی کو تنہائی میں تنہا کیسے چهوڑ دوں 
اس تنہائی نے تنہائی میں تنہا میرا ساتھ  دیا ہے مسعود 

محمد مسعود نونٹگھم یو کے

اُبلا انڈا

اُبلا انڈا 

محمد مسعود نونٹگھم یو کے


یہ واقع تقریباً 1988 کا ہے اور نومبر یا دسمبر تھا پوری سردی آدھے کپڑے اِک غربت کا مارا بچہ اُبلے انڈے بیچ رہا تھا ٹھٹھری ہوئی آواز جب اُس کی میری کار کے اندر آئی میں جو اِس پوری سردی میں پورے کپڑے پہنے اپنی کار کے ہیٹر کے آگے تھا میں نے بھی اِک اُبلا انڈا گرم فضا میں بیٹھ کے کھایا جو اُس پیارے سے بچے نے سرد ہوا میں سڑک کنارے بیٹھے اور اپنے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے چھیلا تھا پیسے دیتے دیتے میں نے اُس بچے کو غور سے دیکھا پوری سردی آدھے کپڑے اُف نیلے ہونٹوں والا بچہ سرد ہوا میں کانپ رہا تھا بچپن اُس کا ہانپ رہا تھا میں نے اُس کی حالت دیکھی

اور کہا کہ بیٹا تم بھی اِیک انڈہ کھا لو تو کیا ہے  وہ بولا کہ توبہ انکل بیس روپے کا مہنگا انڈہ میں کیسے کھا سکتا ہوں 

ہفتہ، 21 نومبر، 2015

اچھے لوگ

کل رات انٹرنیٹ نہیں چل رہا تھا
تو میں اپنے گھر والوں کے پاس 
جا کر بیٹھ گیا
اچھے لوگ ہیں یارو وہ بھی

محمد مسعود نونٹگھم یو کے

میں افسانے اور شعر و شاعری کیونکر لکھتا ہوں

میں افسانے اور شعر و شاعری کیونکر لکھتا ہوں
تحریر محمد مسعود نونٹگھم یو کے

معزز خواتین و حضرات! مجھ سے کہا گیا ہے کہ میں یہ بتائوں کہ میں افسانہ اور شعر و شاعری کیونکر لکھتا ہوں۔ یہ ’کیونکر‘ میری سمجھ میں نہیں آیا۔ ’کیونکر‘ کے معانی لغت میں تو یہ ملتے ہیں۔ کیسے اور کس طرح۔ اب آپ کو کیا بتائوں کہ میں افسانہ اور شعر و شاعری کیونکر لکھتا ہوں۔ یہ بڑی الجھن کی بات ہے۔ اگر میں ’کس طرح‘ کو پیش نظر رکھوں۔ تو یہ جواب دے سکتا ہوں کہ اپنے کمرے میں صوفے پر بیٹھ جاتا ہوں۔ کاغذ قلم پکڑتا ہوں اور بسم اللہ کر کے افسانے لکھنا شروع کر دیتا ہوں۔ میرے دو بچے ہیں ایک بیٹا اور ایک بیٹی  بیٹی لندن اور بیٹا جسکا نام وقاص مسعود میرے پاس ۔ میں اِس سے باتیں بھی کرتا ہوں لڑائی بھی اور کبھی کبھی باہم لڑائیوں کا فیصلہ بھی کرتا ہوں، اپنے لیے چائے ’سلاد‘ کھانا وغیرہ وغیرہ جو بھی پسند ہو تیار کرتا ہوں، اگر کوئی ملنے والا آ جائے  تو اس کی خاطر داری بھی کرتا ہوں۔ مگر افسانے اور شاعری بھی اپنے ذہین میں لکھے جاتا ہوں۔ اور ساتھ ساتھ سوچتا بھی جاتا ہوں 

اب کیسے ‘ کا سوال آئے تو میں یہ کہوں گا کہ میں ویسے ہی افسانے اور شاعری لکھتا ہوں جس طرح کھانا کھاتا ہوں، غسل کرتا ہوں، سگریٹ پیتا ہوں معاف کرنا کبھی پیتا تھا اور جھک مارتا ہوں۔ اگر یہ پوچھا جائے کہ میں افسانے کیوں لکھتا ہوں تو اس کا جواب حاضر ہے… میں افسانہ اول تو اس لیے لکھتا ہوں کہ مجھے افسانہ نگاری کی چائے کی طرح لت پڑ گئی ہے۔ میں افسانہ نہ لکھوں تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں نے کپڑے نہیں پہنے یا میں نے غسل نہیں کیا۔ یا میں نے چائے نہیں پی۔ میں افسانے نہیں لکھتا۔ حقیقت یہ ہے کہ افسانے مجھے لکھتے ہیں میں بہت کم پڑھا لکھا آدمی ہوں۔ لیکن مجھے بعض اوقات حیرت ہوتی ہے کہ یہ کون ہے جس نے اس قدر اچھے افسانے لکھے ہیں شعر ؤ شاعری لکھی جن پر آئے دن لوگ کہتے ہیں کہ مسعود صاحب کیا بات ہے کیا واقع یہ آپ نے لکھا ہے جب قلم میرے ہاتھ میں نہ ہو تو میں صرف محمد مسعود ہوتا ہوں۔ جسے اردو آتی ہے نہ فارسی، انگریزی نہ فرانسیسی۔ افسانہ میرے دماغ میں نہیں، جیب میں ہوتا ہے، جس کی مجھے کوئی خبر نہیں ہوتی۔ میں اپنے دماغ پر زور دیتا ہوں کہ کوئی افسانہ نکل آئے، افسانہ نگار بننے کی بھی بہت کوشش کرتا ہوں۔ چائے پہ چائے پیتا ہوں 
مگر افسانہ دماغ سے باہر نہیں نکلتا۔ آخر تھک ہار کر بانجھ عورت کی طرح لیٹ جاتا ہوں۔ اس لیے بڑی کوفت ہوتی ہے۔ کروٹیں بدلتا ہوں۔ اٹھ کر اپنی چڑیوں کو دانے ڈالتا ہوں۔ بیٹے وقاص اور اپنی بیٹی ہما سے اور اپنی پوتی عنائیہ سے باتیں کرتا ہوں گھر کا کوڑا کرکٹ صاف کرتا ہوں… جوتے…ننھے منے جوتے جو گھر میں جا بجا بکھرے ہوتے ہیں۔ اٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ رکھتا ہوں… مگر کم بخت افسانہ جو میری جیب میں پڑا ہوتا ہے، میرے ذہن میں نہیں اترتا… اور میں تلملاتا رہتا ہوں۔ جب بہت زیادہ کوفت ہوتی ہے تو باتھ روم میں چلا جاتا ہوں۔ مگر وہاں سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ سنا ہوا ہے کہ ہر بڑا آدمی غسل خانے میں سوچتا ہے لیکن مجھے تجربے سے یہ معلوم ہوا ہے کہ میں بڑا آدمی نہیں ہوں، اس لیے کہ میں غسل خانے تک میں نہیں سوچ سکتا… لیکن حیرت ہے کہ پھر بھی کافی اچھا لکھ لیتا ہوں یہ میں نہیں کہتا آپنے چاہنے والوں کی داد سے پتہ چلتا ہے جو میری شاعری اور افسانوں کو بہت پیار ؤ محبت سے پڑتے اور بہت سارا پیار بھی نچھاور کرتے ہیں اور زیادہ دیر دُور رہو تو پُوچھ بھال بھی کرتے ہیں اور زیادہ دیر دُور نہیں رہنے دیتے
میں خدا کو حاضر ناظر رکھ کے کہتا ہوں کہ مجھے اس بارے میں کوئی علم نہیں کہ میں افسانہ کیونکر لکھتا ہوں اور شعر و شاعری کیسے لکھتا ہوں۔ اکثر اوقات ایسا ہوا ہے کہ جب میں زچ بچ ہوگیا ہوں۔ تو میرا دل کہتا ہے مجھ سے یہ آپ سوچئے نہیں، قلم اٹھائیے اور لکھنا شروع کر دیجیئے میں اس کے کہنے پر قلم یا پنسل اٹھاتا ہوں اور لکھنا شروع کر دیتا ہوں دماغ بالکل خالی ہوتا ہے، لیکن جیب بھری ہوتی ہے خود بخود کوئی افسانہ اچھل کے باہر آجاتا ہے۔ میں خود کو اس لحاظ سے افسانہ نگار نہیں، جیب کترا سمجھتا ہوں جو اپنی جیب خود بھی کاٹتا ہے اور آپ کے حوالے کردیتا ہے۔ 
مجھ ایسا بھی بے وقوف دنیا میں کوئی اور ہوگا۔
بس میں ایسا ہی ہوں 


جمعہ، 20 نومبر، 2015

دُکھوں کی چادر جفا کا تکیہ

ﮐﺒﮭﯽ ﺗﻮ ﺁﺅ ﺍﻭﺭ ﺁ ﮐﮯ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﻧﻈﺎﺭﮦ ﻣﯿﺮﯼ  ﺁﺭﺍﻡ ﮔﺎﮦ ﮐﺎ ﮨﺠﺮ ﮐﺎ ﺑﺴﺘﺮ ﺩﮐﮭﻮﮞ ﮐﯽ ﭼﺎﺩﺭ
ﺟﻔﺎ ﮐﺎ ﺗﮑﯿﮧ ﻧﮧ ﻧﯿﻨﺪ ﺁئے ﻧﮧ ﭼﯿﻦ ﺁﮰ ﺳﻠﮕﺘﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺩﮨﮑﺘﮯ ﺁﻧﺴﻮ ﺟﻮ ﺧﻮﺍﺏ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ ﻭﮦ ﭨﻮﭦ ﺟﺎﮰ ﺗﮭﮑﻦ ﺑﮩﺖ ﮨﮯ ﺟﻠﻦ ﺑﮩﺖ ﮨﮯ ﺍﺩﮬﻮﺭﮮ ﭘﻦ ﮐﯽ ﭼﺒﮭﻦ ﺑﮩﺖ ﮨﮯ ﻧﮧ ﮐﺎﺭ ﺩﻧﯿﺎ ﻧﮧ ﮐﺎﺭ ﺟﺎﻧﺎﮞ ﮐﻮﺋﯽ ﻋﺬﺭ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮩﺎﻧﮧ ﻋﺠﯿﺐ ﺁﺗﺶ ﻓﺸﺎﮞ ﺳﯽ ﮨﻠﭽﻞ ﺣﺒﺲ ﮐﯽ ﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﺗﺸﻨﮧ ﺑﺎﺩﻝ ﺗﯿﺮﮔﯽ ﮨﮯ ﺧﺎﻣوشی ﮨﮯ ﻧﯿﻨﺪ ﮐﯽ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺩﺷﻤﻨﯽ ﮨﮯ ﺑﺪﻟﺘﮯ ﭘﮩﻠﻮ ﯾﻮﮞ  ﺭﺍﺕ ﮔﺬﺭﮮ ﺳﻮﯾﺮ ﮐﺎ ﺟﺐ ﺩﯾﺪﺍﺭ ﮨﻮﮔﺎ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﺷﺐ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮨﻮﮔﺎ 

محمد مسعود میڈوز نونٹگھم یو کے

جمعرات، 19 نومبر، 2015

محبت میں جو ڈوبا

محبت میں جو ڈوبا ہو اسے ساحل سے کیا لینا دینا 
مسعود کسے اس ہجر میں جا کر کنارہ یاد رہتا ہے

محمد مسعود نونٹگھم یوکے

بدھ، 18 نومبر، 2015

درد کی دولت


دوستوں کو بھی ملے درد کی دولت یا رب
میرا اپنا ہی بھلا ہو مُجھے منظور نہیں 

DARD KI DAULAT

Doston ko bhi mile dard ki daulat ya rab,
Mera apna hi bhalla ho mujhe manzuur nahin

محمد مسعود نونٹگھم یو کے

مریض کتنے تڑپتے ہیں

مریض کتنے تڑپتے ہیں ایمبولینسوں میں
اور انکا حال ہے ایسا کہ مرنے والے ہیں 
مگر پولیس نے ٹریفک کو روک رکھا ہے
یہاں سے قوم کے خادم گزرنے والے ہیں 


محمد مسعود نونٹگھم یوکے


منگل، 17 نومبر، 2015

مصروف زندگی

اے زندگی------------صرف اتنا بتا مُجھے
یہ مصروف لوگ میرے جنازے پر تو آئیں گے نا

محمد مسعود نونٹگھم یوکے

پیر، 16 نومبر، 2015

کفن بھی کیا چیز ہے

کفن بھی کیا چیز ہے 
جس نے بنایا اُس نے بیچ دیا
خریدنے والے نے استعمال ہی نہ کیا 
اور جس نے استعمال کیا 
اُسے معلوم ہی نہیں

محمد مسعود نونٹگھم یوکے 

اتوار، 15 نومبر، 2015

اپنی پروفائل پر فرانس کا جھنڈا ہی کیوں

اپنی پروفائل پر فرانس کا جھنڈا ہی کیوں 


میں دہشت گردی کی مزمت کرتا ہوں لیکن میں آپ سب کی طرح اپنی پروفائل تصویر کو فرانس کے جھنڈے میں نہیں رنگنا چاہتا میں نے اگر ایسا کرنا ہے تو مجھے سب سے پہلے 
پاکستان
کشمیر 
لبنان 
فلسطین 
شام 
عراق 
مصر 
افغانستان 
کے جھنڈوں کو یاد کرنا ہو گا یہ سب ملک بھی بدترین دہشت گردی کا شکار ہیں یہاں بھی قتل و غارت ہو رہی ہے لیکن کسی نے بھی ان ممالک کے جھنڈے پروفائل پر لگا کر انہیں سپورٹ نہین کیا کیا صرف اس لیے کہ یہ مسلم ممالک تھے فرانس کا جھنڈا لگا کر اس کی مظلومیت کو ضرور سپورٹ کریں لیکن جب فلسطینی سوال کریں تو ان کا جواب بھی ابھی سے سوچ لیجئے کشمیریوں پر ہونے والے ظلم سے لے کر فلسطین تک ہونے والی دہشت گردی کی مذمت شاید ہم پر فرض نہیں ہے میں نے بھی سوچا کہ میں بھی فرانس کے ساتھ اظہار یکجھتی کروں اور اپنی پروفائل تصویر کو اس کے جھنڈے میں رنگ دوں پھر خیال آیا کہ اگر کسی کشمیری فلسطینی  عراقی  لبانی شہری نے سوال ہی کر دیا کہ کیا ہم پر ہونے والے حملوں کی مزمت بھی ایسے ہی کرتے رہے ہو تو میں کیا جواب دوں گا میں ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہوں لیکن میں  معذرت کے ساتھ کہوں گا میں مظلومیت کو مسلم اور غیر مسلم میں تقسیم کرنے کی جرات نہیں رکھتا  میرے نزدیک فرانس میں دہشت گردی ہوئی لیکن میں عراق میں گرنے والے امریکی بارود کو بھی دہشت گردی ہی سمجھتا ہوں میں فلسطین میں ہونے والے اسرائیلی حملوں کو بھی دہشت گردی ہی کہوں گا اور میں کشمیریوں کو بھی دہشت گرد کہنے کی بجائے مظلوم کہوں گا میں بیک وقت سبھی ممالک کے جھنڈوں کے رنگ سے اپنی تصویر نہیں رنگ سکتا اور نہ کسی ایک کے ساتھ کھڑا ہو سکتا ہوں میری ہمدردیاں سب کے ساتھ ایک جیسی ہیں چاہے وہ دہشتگردی مسلم مملک میں ہو یا پھر غیر مسلم مملک میں 
اور میں دُنیا کے ہر ایک مُلک اور ہر ایک کونے سے جہاں انسان بستے ہیں مجھے محبت ہے پیار ہے یہ میرے رب کی بنائی ہوئی کائنات ہے دہشتگردوں کی نہیں   
آخر میں میں بعذات خود دُعاگو ہوں کہ میرا رب ہر مُلک پر اپنے پیارے حبیب کے صدقے اپنی رحمتوں کا سایہ قائم ؤ دوئم رکھے 
آمین ثم آمین 

محمد مسعود نونٹگھم یوکے 

ہفتہ، 14 نومبر، 2015

درد تو مُجھے ہی ہو گا

سوچا یاد نہ کرکے تھوڑا تڑپاؤں ان کو کسی اور کا نام لے کر جلاؤں ان کو
پھر چوٹ لگے گی ان کو 
پھر سوچا کہ درد تو مُجھے ہی ہو گا

محمد مسعود نونٹگھم 

راتوں کا درد

میں بہت درد چُھپاتا ہوں رات کے اندھیروں میں مسعود
دُعا کیا کرو کہ کُچھ دیر کے لیے مُجھے بھی نیند آ جائے کبھی

محمد مسعود نونٹگھم یو کے

جمعرات، 12 نومبر، 2015

شفیق اُستاد

شفیق اُستاد 

پرانے استاد کو اپنی تعلیم مکمل کرنے کیلئے چھٹی پر جانا پڑا تو ایک نئے استاد کو اس کے بدلے ذمہ داری سونپ دی گئی.
نئے استاد نے سبق کی تشریح کر چکنے کے بعد، ایک طالبعلم سے سوال پوچھا۔
اس طالبعلم کے ارد گرد بیٹھے دوسرے سارے طلباء ہنس پڑے۔ استاد کو اس بلا سبب ہنسی پر بہت حیرت ہوئی، مگر اس نے ایک بات ضرور محسوس کر لی کہ کوئی نا کوئی وجہ ضرور ہوگی۔
طلباء کی نظروں، حرکات اور رویئے کا پیچھا کرتے آخرکار استاد نے یہ نکتہ پا لیا کہ یہ والا طالبعلم  ان کی نظروں میں نکما، , احمق، پاگل اور غبی ہے، ہنسی انہیں اس بات پر آئی تھی کہ استاد نے سوال بھی پوچھا تو کسی پاگل سے ہی پوچھا۔
جیسے ہی چھٹی ہوئی، سارے طلباء باہر جانے لگے تو استاد نے کسی طرح موقع پا کر اس طالب کو علیحدگی میں روک لیا۔ اسے کاغذ پر ایک شعر لکھ کر دیتے ہوئے کہا، کل اسے ایسے یاد کر کے آنا جیسے تجھے اپنا نام یاد ہے، اور یہ بات کسی اور کو پتہ بھی نا چلنے پائے۔
دوسرے دن استاد نے کلاس میں جا کر تختہ سیاہ پر ایک شعر لکھا، اس کے معانی، مفہوم، ابلاغ اور تشریح بیان کر کے شعر مٹا دیا۔ پھر طلباء سے پوچھا؛ یہ شعر کسی کو یاد ہو گیا ہو تو وہ اپنا ہاتھ کھڑا کرے!
جماعت میں سوائے اس لڑکے کے ہچکچاتے، جھجھکتے اور شرماتے ہوئے ہاتھ کھڑا کرنے کے اور کوئی ایک بھی ایسا لڑکا نا تھا جو ہاتھ کھڑا کرتا۔ استاد نے اسے کہا سناؤ، تو لڑکے نے ازبر یاد کیا ہوا شعر سنا دیا۔
استاد نے لڑکے کی تعریف کی اور باقی سارے لڑکوں سے کہا اس کیلئے تالیاں بجائیں۔ سارے طالبعلم حیرت و استعجاب سے دیدے پھاڑے اس لڑکے کو دیکھ رہے تھے۔
اس ہفتے وقفے وقفے سے، مختلف اوقات میں اور مختلف طریقوں سے ایسا منظر کئی بار ہوا، استاد لڑکے کی تعریف و توصیف کرتا اور لڑکوں سے حوصلہ افزائی کیلئے اس کیلئے تالیاں بجواتا۔
دوسرے طلباء کی نظریں، رویہ اور سلوک اس کے ساتھ بدلنا شروع ہو گیا۔
اس طالب نے بھی اپنے آپ کو بہتر اور افضل سمجھنا شروع کر دیا، اپنی ذات پر بھروسہ کرنے لگا، غبی اور پاگل کی سوچ سے باہر نکل کر عام طلباء بلکہ بہتر کی جانب بڑھنا شروع ہو گیا۔ اپنی صلاحیتوں کو بہتر استعمال کرنے لگا، پر اعتماد ہوا، دوسروں جیسا پڑھنے لگا بلکہ دوسروں کے ساتھ مقابلے میں آنے لگا۔
امتحانات میں خوب محنت کی، اپنے آپ کو ثابت کیا اور اچھے نمبروں سے پاس ہو گیا۔ اگلی جماعتوں میں اور بہتر پڑھا، یونیورسٹی تک پہنچا، آجکل پی ایچ ڈی کر رہا ہے۔

یہ ایک اخبار میں چھپنے والا شخصی قصہ ہے جس میں ایک شخص اس ایک شعر کو اپنی کامیابی کی سیڑھی قرار دے رہا ہے جو ایک شفیق استاد نے چپکے سے اسے یاد کرنے کیلئے لکھ کر دیدیا تھا۔

محمد مسعود کا کہنا یہ ہے کہ

لوگ دو قسم کے ہوتے ہیں:
ایک قسم ان لوگوں کی ہوتی ہے جو خیر کی کنجیوں کا کام کرتے ہیں، شر کے دروازے بند کرتے ہیں، حوصلہ افزائی کرتے ہیں، داد دیتے ہیں، بڑھ کر ہاتھ تھامتے ہیں، اپنی استطاعت میں رہ کر مدد کر دیتے ہیں، دوسروں کے شعور اور احساس کو سمجھتے ہیں، کسی کے درد کو پڑھ لیتے ہیں، مداوا کی سبیل نکالتے ہیں، رکاوٹ ہو تو دور کر دیتے ہیں، تنگی ہو آسانی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ترشی ہو تو حلاوت گھولنے کی کوشش کرتے ہیں، مسکراہٹ بکھیرتے ہیں، انسانیت کو سمجھتے ہیں، انسانیت کی ترویج کر دیتے ہیں، کسی کی بیچارگی کو دیکھ کر ملول ہوتے ہیں اور اپنے تئیں چارہ گری کی سبیل کرتے ہیں، ابتداء کرتے ہیں، ایجاد کرتے ہیں، ساتھ دیتے ہیں، مل کر کھاتے ہیں، دکھ بانٹتے ہیں، درد سمجھتے ہیں۔
دوسری قسم کے لوگ اس کے برعکس شر کا دروازہ کھولنے والے، قنوطیت اور یاسیت کو پروان چڑھانے والے، چلتوں کو روکنے والے، سامنے پتھر لڑھکانے والے، حوصلوں کو پست کرنے والے، منفی رویوں کی ترویج اور اجاگر کرنے والے، شکایتوں کے پلندے اٹھائے، نصیبوں کرموں اور تقدیروں کو رونے والے، راستے بند اور راستوں میں کھونٹے گاڑنے والے۔
آپ معلم ہیں، والد ہیں، والدہ ہیں، استاد ہیں، قائد ہیں، یا ایک عام شہری ہیں؛ ایک سوال ہے آپ سے: کیا آپ اپنی قسم بیان کر سکتے ہیں؟

اللهم اجعلنا ممن يعين على فعل الخير ويدخل السرور على الآخرين .. واجعلنا يا إلهي مفاتيح للخير مغاليق للشر - 

آمین آمین آمین ثم آمین 

آخر میں آپ سب سے التماس ہے کہ میرے اور فیملی کے لیے دُعا ضرور کریں اور ہمیشہ اپنی دُعاؤں میں یاد رکھیں 
شُکریہ

محمد مسعود میڈوز نونٹگھم یو کے 


دسمبر

دسمبر

تُمہارے بعد گزریں گے بھلا کیسے ہمارے دن
نومبر سے بچیں گے_ تو دسمبر مار ڈالے گا

محمد مسعود نونٹگھم یوکے


لالچ بُری بلا

لالچ بُری بلا ہے
محمد مسعود نونٹگھم یو کے

ایک لالچی شخص کے پاس ایک دودھ دینے والی گائے تھی۔ پس وہ روزانہ اس کا دودھ پانی ملا کر بیچتا تھا۔ اس طرح وہ دوگنا پیسے کما لیتا۔ اتفاق سے ایک دن وہ گائے کسی چراگاہ میں چر رہی تھی کہ اچانک سیلاب آیا اور گائے کو بہا کر لے گیا۔
وہ شخص اپنے گائے کے غم میں بیٹھا رو رہا تھا کہ اس کے بیٹے نے اس سے کہا:
"اے ابا جان! اس میں رونے کی کیا بات ہے۔ وہ پانی جس کو ہم دودھ میں ملا کر بیچتے تھے، جمع ہوتے ہوتے آج ہماری گائے کو ہی بہا کر لے گیا۔

بدھ، 11 نومبر، 2015

شعلہ اور شبنم


شعلہ اور شبنم


اس زمیں آسماں کی خیر نہیں آج اُس کا مزاج برہم ہے

سب دئیے اُس کے سامنے گُل ہیں کون شعلہ ہے کون شبنم ہے


محمد مسعود نونٹگھم یو کے

گاؤں بارش میں سلامت ہیں نگر ڈوب گئے

گاؤں بارش میں سلامت ہیں نگر ڈوب گئے 
محمد مسعود


گاؤں بارش میں سلامت ہیں نگر ڈوب گئے 
جو بلندی پہ بنے تھے وہی گھر ڈوب گئے


ایسا سیلاب نہ پہلے کبھی دیکھا نہ سنا 
دیکھتے دیکھتے سارے ہی شجر ڈوب گئے 


اب جہاں کس سے اجالے کی لگائے امید  
بحر تاریکی میں خود شمس و قمر ڈوب گئے 


ان سفینوں کے مقدّر پے  بھنور بھی ہے اداس 
آ گئے تھے جو کناروں پہ مگر ڈوب گئے 


ایک سیلاب سا دنیائے ادب میں آیا 
کم نظر زندہ رہے اہل نظر ڈوب گئے 


خوش ہیں رہگیر کناروں پہ کسے اس کا ہوش
ساتھ کچھ اور بھی تھے جانے کدھر ڈوب گئے 


پیاس بھی خوب تھی کہ بڑھتی ہی رہی 
 جام صہبا میں میرے شام و سحر ڈوب گئے 

منگل، 10 نومبر، 2015

سرد موسم

سرد موسم

موسم آنے والا ہے سردی کا مسعود
اور کچھ نہیں تو اداسی اوڑھ لینا

محمد مسعود نونٹگھم یو کے


پیر، 9 نومبر، 2015

خط

خط

تمہیں عادت تھی نہ خط جو لکھنے کی 
مسعود خط پہ اب نام کس کا لکھتے ہو

محمد مسعود نونٹگھم یوکے

گئیے دنوں کی یاد

Iگئیے دنوں کی یاد

کسی کا عشق کسی کا خیال تھے ہم بھی 
گئیے دنوں میں بہت باکمال تھے ہم بھی  

محمد مسعود نونٹگھم یوکے 

GAY DINON KI YAAD

                                                                          
KISI KA ISHQ KISI KA KHAYAAL THEY HUM BHI
GAYE DINON MAIN BOHAT BA KAMAAL THEY HUM BAHI

M MASOOD NOTTM UK 



اتوار، 8 نومبر، 2015

میں کتنا عجیب ہوں

کتنا عجیب ہوں

میں بھی کتنا عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ
بس خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں

محمد مسعود نونٹگھم یو کے

تمہاری یاد

تمہاری یاد

دیئے کی لو سے اندھیرا اوجھال رکھا ہے
تمہاری یاد کا بے حد خیال رکھا ہے 

محمد مسعود نونٹگھم یو کے

TUMHARI YAAD

Diye ki lau se andhera ujaal rakha hai
Tumhari yaad ka behadh khayaal 
rakha hai

M MASOOD NOTTM UK

جمعرات، 5 نومبر، 2015

جُدائی کے معنی

جُدائی کے معنی 

گوشت ناخن سے الگ کر کے دکھایا میں نے
اُس نے پوچھے تھے جدائی کے معنی مجھ سے

محمد مسعود نونٹگھم 

بدھ، 4 نومبر، 2015

خاموشی

خاموشی 

میرے رُوٹھ جانے سے اب اُن کو کوئی فرق نہیں پڑتا
بےچین کر دیتی تھی کبھی جن کو میری خاموُشی 


KHAAMOSHI 

MERE ROOTH JANE SE AB UNKO KOI FARAQ NAHI PARTA
BECHAIN KAR DAITI THI KABHI JONKO KHAAMOSHI MERI 

محمد مسعود نونٹگھم یو کے

یادیں

یادیں 

وہ اپنی یادوں کے سہارے جینا چاہتے ہیں اور میں اُن کے سہارے


محمد مسعود نونٹگھم یو کے

خالی گھر

خالی گھر 

ایسے بھی گھر میں کیا رکھا ہے کے ترتیب دوں جسے 
کُچھ خواب ہیں اِدھر سے اُدھر کر رہا ہوں میں

محمد مسعود

دور تجھ سے گزری جو ہر گھڑی لکھ رہا ہوں

دور تجھ سے گزری جو ہر گھڑی لکھ رہا ہوں 
جو بیتا ہے مجھ پر وہ سبھی لکھ رہا ہوں،


تو نے غموں میں اُلجھایا بہت ہے مُجھے 
میں نام تیرے اپنی ہر خوشی لکھ رہا ہوں


یہ عمر بھر کا بندھن ہے دو چار دن کا نہیں
دل میں جتنی ہے چاہت میں سبھی لکھ رہا ہوں


کرو میری باتوں کا یقین تم اگر کرتے ہو تو 
میں تیرے لئے جو کچھ بھی ہوں ابھی لکھ رہا ہوں


نہیں کمی کسی لفظ کی میری اس کتاب میں
میں فقط اپنی غزل میں تیری کمی لکھ رہا ہوں


شاید درد تجھے میرا کبھی اچھا نہ لگے نام 
میں تیرے لئے خود کو اجنبی لکھ رہا ہوں


محمد مسعود 

بوڑھے والدین

بوڑھے والدین 

ایک بیٹا اپنے بوڑھے والد کو یتیم خانے میں چھوڑ کر واپس لوٹ رہا تھا اس کی بیوی نے اسے یہ یقینی بنانے کے لئے فون کیا کہ والد تہوار وغیرہ کی چھٹی میں بھی وہیں رہیں گھر نہ چلے آیا کریں بیٹا پلٹ کے گیا تو پتہ چلا کہ اس کے والد یتیم خانے کے سربراہ کے ساتھ ایسے گھل مل کر بات کر رہے ہیں کہ بہت پرانے اور قریبی تعلق ہوں تبھی اس کا باپ اپنے کمرے کا بندوبست دیکھنے کے لئے وہاں سے چلا گیا اپنی تجسس کو ٹھنڈا کرنے کے لئے بیٹے نے یتیم خانے کے سربراہ سے پوچھ ہی لیا آپ میرے والد کو کب سے جانتے ہیں انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا بیٹا گزشتہ تیس سال سے جب وہ ہمارے پاس ایک یتیم بچے کو گود لینے آئے تھے

محمد مسعود میڈوز نونٹگھم یو کے

دیا ( چراغ )

دیا  ( چراغ )

تُجھ کو پانے کی آرزو کرنا 
آندھیوں میں دیا جلانا تھا

محمد مسعود
DIYA  ( light )

Tujh ko paanay ki aarzu karna,
Aandhiyon main diya jalaana tha


اپنے غم






اپنے غم 

جب بھی کسی سے کہنے کو ہم اپنے غم گئیے 
ہونٹوں تک آتے آتے الفاظ جم گئیے 

محمد مسعود نونٹگھم یو کے



APNE GHAM

Jab bhi kisi se kehne ko hum apne gham gaye Honton tak aate aate alfaaz jamm gaye 


M MASOOD UK



پیر، 2 نومبر، 2015

مجھے اب ڈر نہیں لگتا

مجھے اب ڈر نہیں لگتا
محمد مسعود


مجھے اب ڈر نہیں لگتا
کسی کے دور جانے سے


تعلق ٹوٹ جانے سے 
کسی کے مان جانے سے


کسی کے روٹھ جانے سے
مجھے اب ڈر نہیں لگتا


کسی کو آزمانے سے
کسی کو یاد رکھنے سے


کسی کو بھول جانے سے
کسی کو چھوڑ جانے سے


کسی کے چھوڑ جانے سے
مجھے اب ڈر نہیں لگتا