پیر، 28 دسمبر، 2015

کسی کے بارے میں غلط یا بُرا سوچنا

بد گمانی کیا ہے ( یا )
کسی کے بارے میں غلط یا بُرا سوچنا 
محمد مسعود نونٹگھم یو کے


بدگمانی کیا ہے کسی کے بارے میں برا سوچنا، اس کے بارے میں غلط اندازے لگانا اور پھر ان اندازوں اور مفروضوں کی بنیا دپر کوئی اقدام کرگذرنا۔ بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ ہمیں کسی سے کوئی شکایت ، کوئی تکلیف، کوئی اختلاف یا کوئی پریشانی ہوجاتی ہے۔ اب ہم یہ سوچ میں پڑجاتے ہیں کہ اس نے ایسا رویہ کیوں اختیار کیا، ایسا منہ کیوں بنایا، کیوں وہ اس وقت خاموش رہا وغیرہ۔
 یہ بظاہر ایک نارمل سی بات ہے جو ہمارے ذہن میں پیدا ہوتی ہے۔ دراصل ہم کسی کے غلط روئیے کی توجیہہ کرنا چاہتے ہیں۔ چونکہ بات عام طور پر باڈی لینگویج میں ہوتی ہے  اس لئے ہم اس سے براہ راست اس روئیے کی وجہ بھی نہیں پوچھ پاتے۔ یہیں سے گمانوں کا سفر شروع ہوتا ہے، یہیں سے ہم ٹوہ لینا شروع ہوجاتے ہیں، یہیں سے ہم اندازوں میں غلطاں ہوجاتے ہیں کہ  شاید یہ وجہ ہوگی یا وہ وجہ۔
اس منفی سوچ کے موقع کو  شیطان بہت آسانی سے استعمال کرتا اور ہمارے  ذہن میں اپنے بھائی یا بہن  کے خلاف  سوچیں پیدا کرتا ہے۔ وہ  یہ خیال دل میں ڈالتا ہے کہ ضرور وہ تمہارا مخالف ہے، ضرور و ہ تمہیں ناپسند کرتا ہے، وہ ضرور کسی سازش میں مصروف ہے ، وہ ضرور کوئی کاروائی کرنا چاہتا ہے وغیرہ۔
بدگمانی کی حقیقت کو دیکھا جائے تو کچھ نہیں محض ایک مفروضہ ہے جس کا کوئی نہ کوئی نقطہ آغاز ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی نے ہمارے سوال کا جواب نہیں دیا تو  یہاں سے ہم نے اس کے بارے میں سوچنا شروع کردیا ۔ بدگمانی کی ابتدا ہوئی اور دماغ میں سوچیں چلنا شروع ہوگئیں۔ " اس نے جواب اس لئے نہیں دیا کہ شاید وہ مجھے کمتر سمجھتا ہے، شاید وہ بات نہیں کرنا چاہتا، شاید وہ  مغرور ہے، شاید وہ امیر ہے اور میں غریب، شاید یہ شاید وہ۔" اب اس واقعے کے بعد ہم اس شخص کو اپنے انہی مفروضات کی روشنی میں دیکھنا شروع ہوجاتے ہیں ۔ پھر ہمیں اس کی چال میں بھی تکبر نظر آنے لگتا ، اس کی بول چال تحقیر آمیز لگتی اور اس کا طرز زندگی بناوٹی لگتا ہے۔
بدگمانی ایک مفروضہ ہے جو اگر درست ہوبھی جائے تو بھی ہماری زندگی پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ لیکن اگر یہ غلط ہوجائے تو ہماری زندگی کے کئی قیمتی لمحات ضائع ہوجاتے ہیں۔ہماری بدگمانی سے سامنے والے کو کوئی نقصان نہیں ہوتا بلکہ ہم خود ہی غلط اندازوں کی بنیاد پر جلتے اورکڑھتے رہتے ہیں۔ کبھی حسد کا شکار ہوجاتے، کبھی غصے میں مٹھیاں بھیچتے، کبھی کسی انتقامی کاروائی کا سوچتے، کبھی مزا چکھانے کا خیا ل دل میں لاتے تو کبھی  کسی سازش کے تانے بانے بننے میں مصروف  ہوجاتے ہیں۔  دوسری جانب جب وہ شخص ہم سے ملتا ہے تو پرسکو ن ہوتا ہے۔ اس کا سکون دیکھ کر تن بدن  میں اور آگ لگ جاتی ہے اور ایک اور  بدگمانی کا اضافہ ہوجاتا ہے کہ شاید یہ ہمیں مزید مشتعل کررہا ہے۔
 بدگمانی  کا اصل سبب سوچنا اور غلط سوچنا ہے۔ اس کا علاج سوچنے سے گریز کرنا یا خوش گمانی ہے۔ ہمیں    ہر اس مفروضے ، اندازے ، تخمینے اور  سوچ کو  قابو کرلینا چاہئے جس سے بدگمانی پیدا ہو۔ ہمیں ہر صورت میں اپنے بھائی یا بہن کو انسان سمجھنا چاہِے کہ ممکن ہے اس سے غلطی ہوگئی ہو، ممکن ہے وہ بھول گیا ہو، ممکن ہے وہ پریشانی کی وجہ سے ایسا کرگیا ہو وغیرہ۔ بدگمانی کا علاج مثبت سوچ،  دوسروں کو معاف کردینا ، ان کی کوتاہیوں سے صرف نظر کرنا، ان کو مجبوریوں کا  مارجن دینا  اور ان سے یکطرفہ محبت کرنا ہے۔ بصورت دیگر ہم مفروضوں کی بنیاد پر عین ممکن ہے کوئی ایسا اقدام کربیٹھیں جس سے ہماری دنیا و آخرت دونوں متاثر ہوں۔


محمد مسعود میڈوز نونٹگھم یو کے

تابہ نظر ایک شہر خموشاں ہے

تابہ نظر ایک شہر خموشاں ہے
کُچھ طائروں کی صدائیں ہیں یسین کا وردھ
اور اگر بتیوں کی ہے خوشبو
کہیں تازہ قبروں پہ تازہ گلابوں کے کُچھ ہار ہیں 
ایک تھکا ہارہ حالات کا سخت مارا
کوئی نوجوان رو رہا ہے 
سنو میری پیاری ماں 
اپنے آنگن میں برگد کا جو پیڑ تھا 
جس کے سائے میں ایک چار پائی پہ تو بیٹھ کر
خالقِ دو جہان کی ثناُء کرتی رہتی تھی وہ کٹ گیا 
صحن کے بیچ میں اب ایک دیوار ہے
گھر ہی کیا گھر میں جو کچھ بھی تھا
بھائیوں اور بہنوں میں سب کُچھ بٹ گیا
میرے حصے میں تیری محبت ہے ماں
تیری دُعائیں ہیں ماں
اور مہرباں لمس کی مہرباں یادیں ہیں 
میرا سر گود میں رکھ کہ مُدت ہوئی 
ایک لمحہ بھی شب بھر میں سویا نہیں 
تو خفا ہو گی مُجھ سے یہی سوچ کر
بس سلگتا رہا اور رویا نہیں 

اپنی مرحومہ ولداہ محترمہ کے نام 

جمعہ، 25 دسمبر، 2015

میں گناہ گار ہوں

بسمالله الرحمن الرحيم

مجھ کو بھی میرے دوست دعاؤں کیلئے کہتے ہیں 
کس قدر میرے اللہ نے میرے گناہ چھپا رکھے ھیں

جب لوگ تمہاری شخصیت سے متاثر ہوں تو انکے متاثر ہونے پر خوش نہ ہونا بلکہ اس بات پرخوش ہونا کہ 
اللہ جل شانہ' نےکتنی خوبصورتی سے آپکے عیبوں کی پردہ پوشی کی ھے
بےشک اللہ ہی عزت دینے والا ہے

الحمداللہ_رب العالمین  ارحمنا یا ارحم الراحمین
آمین یا ستار العیوب آمین یارب العالمین

السلام علیکم
محمد مسعود

جمعرات، 17 دسمبر، 2015

جَد دا پُتر باہر گیا اے

محمد مسعود میڈوز نونٹگھم یو کے

جَد دا پُتر باہر گیا اے خالی ھو گھربار گیا اے
چوٹھے ہاسے ھسدی پئی اے ماں لوکاں نو دسدی پئی اے
ڈالر پانڈ کماندا اے سوھنا اوتھے دفتر جاندا اے سوھنا 
اچی کوٹھی پا بیٹھی آں سوھنا گھر بنا بیٹھی آں
کلی چھڈ کے کوٹھی پائی اے کیتی ساری اوس کمائی اے 
گھر پراڈو وی کل لئی اے اونج وی نوکر چاکر کئی اے
پیو دا پار اٹھا لیا اے سوھنے ایناں کج کما لیا اے سوھنے
جدوں وی شہر میں جانی آں لکھاں دے وچ لانی آں مڑ کاھدا پردیس نی اڑیئے باھر وی اپنا ای دیـس نی اڑیئے
اوھدی کال وی آندی اے ڈیلی گل ھو جاندی اے 
جد وی کوئی مجبوری ھووے اوھدا آن ضروری ھو وے 
دو گھنٹے وچ آجاندا اے سارے کم مکا جاندا اے
ایـنے وچ دو ھنجو ڈھپئے انج نکلے کے بولن ڈھپئے
فر ماں سچ سچ بولن لگ پئی دل دے زخم پھرولن لگ پئی 
باھرو باھری جینے آں اڑئیے اندروں تاں او مار گیا اے
جد دا پتر باھر گیا اے خالی ھو گھر بار گیا اے
روٹی ٹھنڈی کھاندا نئی سی کپڑے میلے پاندا نئی سی 
نیند دا بڑا پکا سی او سویرے مسیتے جاندا نئی سی 
اینا غصہ کردا سی گل گل اتے لڑدا سی 
اوتھے کس نال لڑدا ھوسی کیويں گزارا کردا ھوسی
اے غـم دل نوں ٹھار گیا اے
جد دا پـتر باہر گیا اے سنا ھو گھر بار گیا اے
چھ ماہ پہلے آیا سی او اپنے گھر پرایہ سی او 
روٹی ٹھنڈی کھا لیندا اے کپڑے میلے پا لیندا اے
جــتن والہ ہر جاندا اے ھن تے ھر گل جھل جاندا اے
جدوں پچھنی آں توں خوش ایں ہس کے چپ جیا کر جاندا اے
میں تے اودی ماں واں اڑئيے ادب 
دی اودی تھاں واں اڑئیے 
میرے اگے بولدا نئی ہنجواں دے در کھولدا نئی
میں دکھی نہ ھو جاواں ہس ہس وقت گزار گیا اے
جد دا پـتر باہر گیا اے خالی ھو گھر بار گیااے
میں اونوں پہچاننی آں میں تے ہر گل جاننی آں
آکھو وے پردیـس نی اڑئیے دیس تے ہندا اے دیـس نی اڑئیے
اگ وچ سڑن کمائیاں اڑئيے پائیاں جناں جدائياں اڑئيے ہن تے اے ارادہ کیتا اے اپنے دل نال واہدہ کیتا اے
رکھا سکھا کھا لانگی میں واپس پتر بلا لانگی میں 
واپس پتر بلا لانگی میں

محمد مسعود میڈوز نونٹگھم یو کے

بدھ، 16 دسمبر، 2015

میں تو یک مُشت سونپ دوں سب کچھ لیکن

محمد مسعود میڈوز نونٹگھم یوکے


میں تو یک مُشت سونپ دوں سب کچھ لیکن
بھلا ایک مٹھی میں میرے خواب کہاں اتے ہیں 



مدتوں بعد جو اسے دیکھ کے دل بھر آیا 
ورنہ صحراوں میں سیلاب کہاں آتے ہیں 



میری بے درد نگاہوں میں اگر بھولے سے 
نیند ائی بھی تو اب خواب کہاں اتے ہیں 



تنہا رہتا ہوں میں دن بھر بھری دنیا میں 
مسعود دن برے ہوں تو احباب کہاں اتے ہیں 



مورخہ ۱۶/۱۰/۲۰۱۵ بروز جمعہ شام ۱۱بجکر ۴۱ منٹ پر

بیٹیاں

محمد مسعود میڈوز نونٹگھم یو کے


ایک شخص کے ہاں صرف بیٹیاں تھیں ہر مرتبہ اس کو امید ہوتی کہ اب تو بیٹا پیدا ہوگا مگر ہر بار بیٹی ہی پیدا ہوتی اس طرح اس کے ہاں یکے بعد دیگرے چھ بیٹیاں ہوگئیں اس کی بیوی کے ہاں پھر ولادت متوقع تھی وہ ڈر رہا تھا کہ کہیں پھر لڑکی پیدا نہ ہو جائے شیطان نے اس کو بہکایا چناں چہ اس نے ارداہ کرلیا کہ اب بھی لڑکی پیدا ہوئی تو وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے گا۔ اس کی کج فہمی پر غور کریں بھلا اس میں بیوی کا کیا قصور۔
رات کو سویا تو اس نے عجیب وغریب خواب دیکھا اس نے دیکھا کہ قیامت برپا ہو چکی ہے اس کے گناہ بہت زیادہ ہیں جن کے سبب اس پر جہنم واجب ہوچکی ہے۔ لہٰذا فرشتوں نے اس کو پکڑا اور جہنم کی طرف لےگئے پہلے دروازے پر گئے۔ تو دیکھا کہ اس کی ایک بیٹی وہاں کھڑی تھی جس نے اسے جہنم میں جانے سے روک دیا۔ فرشتے اسے لے کر دوسرے دروازے پر چلے گئے وہاں اس کی دوسری بیٹی کھڑی تھی جو اس کے لئے آڑ بن گئی۔ اب وہ تیسرے دروازے پر اسے لے گئے وہاں تیسری لڑکی کھڑی تھی جو رکاو ٹ بن گئی۔ اس طرح فرشتے جس دروازے پر اس کو لے کر جاتے وہاں اس کی ایک بیٹی کھڑی ہوتی جو اس کا دفاع کرتی اور جہنم میں جانے سے روک دیتی۔ غرض یہ کہ فرشتے اسے جہنم کے چھ دروازوں پر لے کر گئے مگر ہر دروازے پر اس کی کوئی نہ کوئی بیٹی رکاوٹ بنتی چلی گئی۔ اب ساتواں دروازہ باقی تھا فرشتے اس کو لے کر اس دروازے کی طرف چل دیئے اس پر گھبراہٹ طاری ہوئی کہ اس دروازے پر میرے لئے رکاوٹ کون بنے گا اسے معلوم ہوگیا کہ جو نیت اس نے کی تھی غلط تھی وہ شیطان کے بہکاوے میں آگیا تھا۔ انتہائی پریشانی اور خوف ودہشت کے عالم میں اس کی آنکھ کھل چکی تھی اور اس نے رب العزت کے حضور اپنے ہاتھوں کو بلند کیا اور دعا کی۔
اللھم ارزقنا السابعۃ
اے اللہ مجھے ساتویں بیٹی عطا فرما۔
اس لئے جن لوگوں کا قضا وقدر پر ایمان ہے انہیں لڑکیوں کی پیدائش پر رنجیدہ خاطر ہونے کی بجائے خوش ہونا چائیے ایمان کی کمزوری کے سبب جن بد عقیدہ لوگوں کا یہ تصور بن چکا ہے کہ لڑکیوں کی پیدائش کا سبب ان کی بیویاں ہیں یہ سرا سر غلط ہے اس میں بیویوں کا یا خود ان کا کوئی عمل دخل نہیں بلکہ میاں بیوی تو صرف ایک ذریعہ ہیں پیدا کرنے والی ہستی تو صرف اللہ وحدہ لاشریک لہ ہے
لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَ (49) أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا وَيَجْعَلُ مَنْ يَشَاءُ عَقِيمًا إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ (50)
(ترجمہ)آسمانوں کی اور زمین کی سلطنت اللہ تعالی ہی کے لئے ہے وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے یا پھر لڑکے اور لڑکیاں ملا جلا کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ کر دیتا ہے وہ بڑے علم والا اور کامل قدرت والا ہے۔


منگل، 15 دسمبر، 2015

بھٹکا ہوا مسافر


اے زندگی میں تجھ سے بس اتنا پوچھتا ہوں
منزل کہاں ہے میری  کچھ تو مجھے بتا دے
بھٹکا ہوا مسافر  ہوں رستہ مجھے دکھا دے

محمد مسعود

اتوار، 13 دسمبر، 2015

فیس بک بہت خطر ناک ہے

   

محمد مسعود ( نونٹگھم یو کے ) سوشل میڈیا جہاں اپنے کئی فوائد رکھتا ہے وہیں اس کے منفی پہلو بھی ہیں۔ آج اکثر لوگ اپنے روزمرہ زندگی کے معمولات تک سوشل میڈیا پر شیئر کر دیتے ہیں جس سے انہیں نقصان پہنچنے کا بھی اندیشہ ہوتا ہے، کیونکہ اس طرح ہر شخص ان کی نقل و حرکت اور خریداری جیسے ذاتی کاموں سے بخوبی آگاہ ہو جاتا ہے۔ اگر آپ محفوظ رہنا چاہتے ہیں اور اپنی زندگی میں سکون اور راحت لانا چاہتے ہیں تو برائے مہربانی میری اِن پانچ باتوں پر عمل کریں آئیے  ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ وہ پانچ باتیں کون سی ہیں اور آپ کبھی بھی اِن باتوں کو اپنی فیس بک یا کسی سوشل میڈیا ویب سائٹ پر شیئر نہ کریں۔
( ۱ ) سب سے پہلے آپ کبھی بھی فیس بک پر یہ بات شیئر نہ کریں کہ آپ کب گھر چھوڑ کر جاتے ہیں اور کب واپس آتے ہیں۔ کیونکہ اس سے شرپسند عناصر آپ کے اس معمول سے واقف ہونے کے بعد آپ کی عدم موجودگی میں آپ کے گھر کسی بھی طرح کی واردات کر سکتے ہیں۔

( ۲ ) دوسرے نمبر پر کبھی بھی سوشل میڈیا پر اپنی شاپنگ کے متعلق معلومات شیئر نہ کریں، اس سے لوگوں کو ایک تو آپ کی مالی حیثیت کا اندازہ ہو جاتا ہے اور دوسرے انہیں یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ آپ فلاں قیمتی چیز خرید کر گھر لائے ہیں۔حلانکہ ہم ویسے ہی شاپنگ سنٹر میں اپنا ٹائم پاس کرنے گئیے ہوتے اور ہم اپنے آپ کو بڑا امیر ثابت کرنے کے لیے اور اپنے جاننے والوں میں یہ مشہور کرنے کے لیے آج ہم فلاں جگہ شاپنگ کرنے گئیے تھے  کیا آپ کے ایسا کرنے سے آپ کے جاننے والے خوش ہوتے ہیں ہر گز نہیں بلکہ وہ آپ کے اپ ڈیٹ پر لائک کو اِس لیے پریس کرتے ہیں کہ کیا آپ نے اُنہیں بےقوف بنا رکھا ہے کیا آپ اُنہیں پاگل سمجھتے ہیں ہرگز نہیں پاگل اور بےقوف تو آپ بعذات خود ہیں سارا دن آپ اُنہی کے ساتھ گزُرتے ہو اور اُوپر سے جھوٹ اور پھر فخر کرتے ہو کہ میں نے بڑا تیر مارا ہے زرا سوچو کہ آپ کیا کر رہے ہو 

( ۳ ) تیسرے کبھی بھی سوشل میڈیا پر اپنی موجودگی کی جگہ شیئر مت کریں۔آپ کو معلوم ہے جب آپ اپنا لاپٹپ ، کمپیوٹر موبائل  یا پھر ایسی کوئی بھی چیز جس سوشل میڈیا سے ہے اس سے بھی آپ مشکل میں پھنس سکتے ہیں۔ہمیشہ اپنے سوشل میڈیا اکاﺅنٹس پر لوکیشن کا آپشن آف موڈ پر رکھیں اِس سے آپ بہت ساری پریشانیوں سے بچ سکتی ہیں شپیشل آپکا موبائل  کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے موبائل سے وہ سب کُچھ معلوم کیا جا سکتا ہے جو آپ کے وہم ؤ گمان میں بھی نہیں آ سکتا آپ کے فون سے یہ تک پتہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کہاں کہاں گئیے دن میں کتنی بار گئیے اِس جگہ سے آپ دن میں کتنی بار گُزرے اور کسی ہاں اگر رُکے تو کتنی دیر رُکے آپ اپنے کو کیوں پریشانیوں ڈال رہے ہو زرا سوچو کہ آپ کتنے ہوشیا ر ہیں وہ وقت دُور نہیں ہے کہ یہی ٹیکنولجی جو آپ اور ہم استعمال کر رہے ہیں ہم سب کے لیے کتنی مصیبت بن سکتی ہے  

( ۴ ) چوتھے نمبر پر کوئی بھی چیز شیئر کرنے سے پہلے بہت آرام سے اچھی طرح سوچ لیں پھر اس پر ایک بار نہیں کئی بار نظر ڈال لیں اور پھر اچھی طرح تسلی کر لیں کہ یہ مواد جو آپ سوشل میڈیا پر لگانے جا رہے ہیں وہ ساری دُنیا میں جائے گا اور ساری دنیا کے سامنے جانے کے بعد آپ کے لیے کسی مصیبت کا باعث تو نہیں بن جائے گا اور میں آپ سے ایک بار پھر گزارش کرتا ہوں خدا راہ زرا سوچئے اور ایک بار نہیں کئی کئی بار سوچئے 

( ۵ ) پانچویں نمبر پر کبھی بھی اپنے عزیزوں، رشتہ داروں اور بالخصوص بچوں کے نام پوسٹس میں مت لکھیں اور انہیں ٹیگ مت کریں۔ اپنے بچوں کی ایسی تصاویر بھی مت شیئر کریں جن سے ان کی شناخت ممکن ہو، جیسے کہ سکول یونیفارم میں لی گئی تصویر، جس پر سکول کا نام کندہ ہوتا ہے بلکہ میرا کہنا یہ کہ بلکہ میری والدین سے اپیل کی ہے کہ فیس بک یا دیگر سوشل میڈیا پر اپنے بچوں کی یا اپنی فمیلی کی تصاویر اس طرح شائع نہ کریں کہ انہیں ہر کوئی دیکھ سکتا ہو۔

میرے خیال میں ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ والدین اپنے بچوں کی جو تصاویر بہت خوبصورت اور معصومیت کی مظہر سمجھ کر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہیں، چند سال بعد یہی تصاویر ان بچوں کے لیے بہت زیادہ شرمندگی اور پریشانی کا باعث بن جائیں میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بچے بہت معصوم ہوتے ہیں اور ہمیں بہت پیارے لگتے ہیں اور ہمیں جو اچھا لگتا ہے ہم وہی کرتے ہیں کسی سے بغیر پوچھے اگر بچے بڑے ہوں اور یہی کام جو آج ہم اپنی مرضی سے کرتے ہیں پُوچھ کر اپنے بچوں سے کریں تو ہو سکتا ہے وہ ہمیں اپنی تصویریں نہ لگانے دیں کیونکہ بچوں کو بھی ان کی نجی زندگی کو خفیہ رکھے جانے سے متعلق ذاتی حقوق ہوتے ہیں، جن کا احترام کیا جانا چاہیے۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ مستقبل میں کسی وقت ایسی تصاویر بچوں کو تشدد یا جنسی حملوں کا نشانہ بنانے والے مجرمانہ ذہنیت کے حامل افراد کے ہاتھ لگ جائیں اور وہ ان کا غلط استعمال کرنے کی کوشش کریں۔“ ہاگن پولیس کے ایک ترجمان کے مطابق یہ تنبیہ جاری کیے جانے کے بعد، جب اس بارے میں منگل کے روز پہلی بار پولیس کا ایک تنبیہی پیغام فیس بک پر پوسٹ کیا گیا تھا، یہ پوسٹ آج بدھ کے دن تک کم از کم ایک لاکھ سے زائد مرتبہ شیئر کی جا چکی تھی اور اسے سات ملین سے زائد فیس بک صارفین دیکھ چکے تھے۔ پولیس کے ترجمان ٹینو شیفر نے نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس بتایا کہ اگر صارفین اپنے بچوں کی تصاویر فیس بک پر پوسٹ کرنا چاہیں بھی تو انہیں کم از کم یہ ضرور کرنا چاہیے کہ وہ فیس بک پر اپنی پرائیویسی سیٹنگز ایسی رکھیں کہ ان تصاویر کو محض اہل خانہ اور قریبی رشتے دار ہی دیکھ سکیں اور یہ تصاویر اجنبیوں کی نظروں سے محفوظ رہیں۔ اُمید ہے کہ مُجھ ناچیز کی باتیں آپ کی سمجھ میں ضرور آئیں گی زرا سوچئے گا ضرور 

اور مُجھ ناچیز محمد مسعود اور میری فیملی کو اپنی دُعاؤں میں ضرور یاد رکھئے گا بہت شُکریہ تحریر پڑھنے کا

منگل، 1 دسمبر، 2015

بیٹا شام سے پہلے گھر لوٹ آیا کرو

بیٹا شام سےپہلے گھر لوٹ آیا کرو
محمد مسعود میڈوز نونٹگھم یو کے

ﻣﺠﮭﮯ ﺑﭽﭙﻦ ﺳﮯ ﻋﺎﺩﺕ ﺗﮭﯽ ﺫﺭﺍ ﺳﯽ ﺷﺎﻡ ہوتے ﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﺑﮭﺎﮒ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﺑﮩﺖ ﺁﻭﺍﺭہ ﭘﮭﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ کہتی ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺷﺎﻡ ہونے ﺳﮯ ﮐُﭽﮫ ﭘﮩﻠﮯ ﺗﻮ ﮔﮭﺮ ﮐﻮ ﻟُﻮﭦ ﺁﯾﺎ ﮐﺮ ﺑﻼﺋﯿﮟ ﺷﺎﻡ ہوتے ہی ﺍﻭﭘﺮ ﺳﮯ ﺍُﺗﺮﺗﯽ ہیں ﭼﮍﯾﻠﯿﮟ ﺭﻗﺺ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺁﺳﯿﺐ ہوتے ہیں ﻣﯿﮟ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﺷﺎﻡ ہوتے ہی ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﺑﮭﺎﮒ ﮐﺮ ﯾﺎﺭﻭ ﮔﻠﯽ ﮐﻮﭼﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺭﺳﺘﻮﮞ ﭘﺮ ﺑﮩﺖ ﻭﯾﺮﺍﻥ ﻗﺒﺮﻭﮞ ﭘﺮ ﺑﯿﺎﺑﺎﻧﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﮐﮭﻨﮉﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﺲ ﻣﺎﺭﺍ ﻣﺎﺭﺍ ﭘﮭﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ
ﻣﺠﮭﮯ ﺍﮎ ﺷﻮﻕ ﺭﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﺑﻼﺋﯿﮟ ﮐُﭽﮫ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﻮﮞ ﮐﻮﺋﯽ ﺁﺳﯿﺐ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺳﺎﯾﮧ ﻧﻈﺮ ﺁﺋﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﭼﮍﯾﻞ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﮐﺴﯽ ﺑﮩﺮُﻭﭖ ﺍﭼﮭﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮑﺎ ﺭﻗﺺ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮑﮯ ﺍُﻟﭩﮯ ﭘﺎﻭٴﮞ ﮐﺎ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺗﺬﮐﺮﮦ ﭼﯿﮭﮍﻭﮞ ﺗﻮ ﺟﮭﭧ ﺳﮯ ﺭُﻭﭖ ﻭﮦ ﺑﺪﻟﮯ
ﻭﮦ ﺍﺻﻠﯽ ﺭُﻭﭖ ﻣﯿﮟ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ ﮈﺭ ﮐﺮ ﺑﮭﺎﮒ ﺟﺎﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭻ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﺩﻭﺳﺖ ﯾﺎﺭﻭں  ﮐﻮ ﮐﺌﯽ ﻗﺼﮯ ﺳُﻨﺎﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﻼﺋﯿﮟ ﺍﯾﺴﯽ ہوتی  ہیں ﭼﮍﯾﻠﯿﮟ ﺍﯾﺴﯽ ہوتی ہیں  ﮔﺰﺍﺭﺍ ﺳﺎﺭﺍ ﺑﭽﭙﻦ ﯾﻮﮞ ﻣﺘﺠﺴﺲ ﺑﮯ ﺛﻤﺮ ﮔﺬﺭﺍ ﮐﻮﺋﯽ ﺁﺳﯿﺐ ﻧﮧ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﺑﻼ دیکھی ﭼﮍﯾﻠﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﻣﻞ ﭘﺎﺋﯽ ﻣﮕﺮ ﺟﺐ ﺁﺝ ﻣﺪﺕ ﺑﻌﺪ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﺷﺎﻡ ہوتی  ہے ہوا ﺩﮬﯿﺮﮮ ﺳﮯ ﭼﻠﺘﯽ ہے ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﺍ ﻣﯿﺮﮮ ﺁﻧﮕﻦ ﻣﯿﮟ ﺫﺭﺍ ﺳﺎ ﭼﮭﺎﻧﮯ ﻟﮕﺘﺎ ہے ﻣﺠﮭﮯ ﮈﺭ ﻟﮕﻨﮯ ﻟﮕﺘﺎ ہے ﺑﻼﺋﯿﮟ ﮨﺠﺮ ﺍﻭﺭ ﻏﻢ ﮐﯽ ﺑﮩﺖ ﺁﺳﯿﺒﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺋﮯ ﭼﮍﯾﻠﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ ﯾﺎﺩﻭﮞ ﮐﯽ
ﺍﻭﺭ ﺭﻭﺣﯿﮟ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﯿﺎﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﺍُﺗﺮ ﮐﺮ ﺁﺳﻤﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺁﻧﮕﻦ ﮐﮯ ﮔﻮﺷﮯ ﻣﯿﮟ
ﺑﮭﯿﺎﻧﮏ ﺭﻗﺺ ﮐﺮﺗﯽ ہیں بے ﮨﻨﮕﻢ ﺷﻮﺭ ﮐﺮﺗﯽ ہیں ﺻﺪﺍﺋﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﯽ ﮐﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮩﺖ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﺩﯾﺘﯽ ہیں  ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﻑ ﮐﮯ ﻣﺎﺭﮮ ﮈﺭﺍ ہوا اور  ﺳﮩﻤﺎ سہما ﺳﺎ ﺭﮨﺘﺎ ہوں ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺏ ﺷﺎﻣﻮﮞ ﮐﺎ ﺁﻧﺎ ﺑﮩﺖ ﺁﺫﺍﺭ ﻟﮕﺘﺎ ہے ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺏ ﺭﻭﺣﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﻠﻨﺎ ﺑﮩﺖ ﺑﮯﮐﺎﺭ ﻟﮕﺘﺎ ہے ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻣﯽ ﮐﺎ ﻭﮦ ﮐﮩﻨﺎ ﺑﮩﺖ ہی ﯾﺎﺩ ﺁﺗﺎ ہے ﺑﻼﺋﯿﮟ ﺷﺎﻡ ہوتے  ﮨﯽ ﺍُﻭﭘﺮ ﺳﮯ ﺍُﺗﺮﺗﯽ ہیں  ﭼﮍﯾﻠﯿﮟ ﺭﻗﺺ ﮐﺮﺗﯽ ہیں  ﺑﮩﺖ ﺁﺳﯿﺐ ہوتے  ہیں 


جب شہر چپ ہو ہنسا لو ہم کو

جب شہر چپ ہو ہنسا لو ہم کو
شاعر محمد مسعود یوکے


جب شہر چپ ہو ہنسا لو ہم کو
جب اندھیرا ہو جلا لو ہم کو


ہم حیقیقت ہیں نظر آتے ہیں 
داستانوں میں چھپا ہم کو


دن نہ پا جائے کہیں صبح کا راز
صبح سے پہلے اُٹھا لو ہم کو


ہم زمانے کے ستائے ہیں بہت
اپنے سینے سے لگا لو ہم کو


وقت کے ہونٹ ہمیں چھو لیں گے  
ان کہے بول ہیں ہم گا لو ہم کو


( شاعر محمد مسعود یوکے )