منگل، 25 نومبر، 2014

میرا درد بڑھتا ہی رہے ایسی دوا دے جاؤ

میرا درد بڑھتا ہی رہے ایسی دوا دے جاؤ 
کچھ نہ کچھ میری وفاؤں کا صلہ دے جاؤ 



یوں نہ جاؤ کہ میں رو بھی نہ سکوں فرقت میں
میری راتوں کو ستاروں کی ضیاء دے جاؤ 



ایک بار آؤ تم کبھی اتنے اچانک پن سے
نا اُمیدی کو تحیریر کی سزا  دے جاؤ 



دشمنی کا کوئی پیرا یہ نادر ڈھونڈو
جب بھی آؤ ہمیں جینے کی دُعا دے جاؤ 



وہی اخلاص و مروت کی پرانی تہمت 
دوستوں مجھے کوئی تو الزام نیا دے جاؤ



کوئی صحرا اگر راہ میں آ جائے مسعود
دل یہ کہتا ہے ایک عدد صدا دے جاؤ  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں