پیر، 19 جنوری، 2015

بہت سی باتیں بتانی ہیں تجھے

بہت سی باتیں بتانی ہیں تجھے
محمد مسعود

میرے گاؤں میں سمندر نہیں ہے
کچھ قطرے پانیوں کے قید ہیں
تالاب میں
جب بھی میں وطن واپس جاتا ہوں
تو ایک شام وہاں گزار دیتا ہوں
مسجد والے تالاب کی سیڑھیوں پر
تالاب کا پانی بدلتا نہیں کبھی
پانی قید ہے وہاں 
 شاید اسی لیے پہچانتا ہے مجھے
جب بھی میں جاؤں وہاں تو کہتا ہے
اچھا ہوا مسعود تو آ گیا 
بہت سی باتیں بتانی ہے تجھے 
اور پھر شروع ہو جاتا ہے
وہ فلاں کی دادی فوت ہو گی 
فلاں کے گھر بیٹا ہوا ہے
فلاں بابو کی نوکری چھوٹ گئی
مغرب کی طرف کا پیپل کا درخت کاٹ دیا
سڑک بنانے والوں نے
وغیرہ وغیرہ
پھر مجھ سے مخاطب ہو کر
پوچھتا ہے مسعود
اچھا یہ تو بتا شہر کے مزاج کیسے ہیں
کون بتاتا ہے تجھے خبریں شہر کی 
میں جواب دیتا ہو 
سمندر ہے نا  ڈھیر سارا پانی 
اور اتنا کہتے ہی 
ایک بگولا پانی کا
گلے میں اٹک جاتا ہے
خُدا حفظ کہہ کہ چلا آتا ہوں
واپس شہر میں
جہاں ایک بڑا سا سمندر ہے
روز سمندر کے کنارے بیٹھا
دیکھتا ہوں
کیسے سینکڑوں گیلن پانی 
بدل جاتے ہیں گزر جاتے ہیں
ایک آدھ قطرہ پانی کا
میری طرف بھی اچھال دیتا ہے سمندر
بس یوں ہی بغیر کسی جان پہچان کے 
اب روز بدلتے پانيوں  والا سمندر 
کیسے شناخت کر پائے گا مجھے
کیسے امید کروں اس سے
کہ وہ کہے گا مسعود
اچھا ہوا تو آ گیا
بہت سی باتیں بتانی ہیں تجھے 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں