منگل، 27 جنوری، 2015

اِن آنکھوں سے رواں رات بات ہو گی

اِن آنکھوں سے رواں رات برسات ہو گی
اگر زندگی صرف جذبات ہو گی



مسافر ہو تم مسافر ہیں ہم بھی
کسی موڑ پر پھر ملاقات ہو گی



صداؤں کو الفاظ ملنے نہ پائیں
نہ بادل گرجیں گے نہ برسات ہو گی



چراغوں کو آنکھوں میں محفوظ رکھنا
بڑی دور تک رات ہی رات ہو گی



ازل سے ابد تک سفر ہی سفر ہے 
کہیں صبح ہو گی کہیں رات ہو گی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں