بدھ، 28 جنوری، 2015

جب میں چھوٹا سا تھا

جب میں چھوٹا سا تھا
شاید دنیا بہت بڑی ہوا کرتی تھی 
مجھے یاد ہے
میرے گھر سے اسکول تک کا وہ راستہ 
کیا کیا نہیں تھا راستے میں وہاں
چاٹ کے ٹھیلے جلیبی کی دکان 
برف کے گولے اور بہت کچھ 
اب وہاں موبائل شاپ  ویڈیو پارلر ہیں 
پھر بھی سب سُونا ہے 
شاید اب دنیا سمٹ رہی ہے
جب میں چھوٹا سا تھا
شاید شامیں بہت لمبی ہوا کرتی تھیں 
مجھے یاد ہے 
میں ہاتھ میں پتنگ کی ڈور پکڑے
گھنٹوں اڑا کرتا تھا
وہ لمبی سائیکل ریس
وہ بچپن کے کھیل 
وہ ہر شام تھک کے چور ہو جانا
اب وہاں شام نہیں ہوتی دن ڈھلتا ہے
اور براہ راست رات ہو جاتی ہے
شاید وقت سمٹ رہا ہے 
جب میں چھوٹا سا تھا
شاید دوستی بہت گہری ہوا کرتی تھی
دن بھر وہ ہجوم بنا کر کھیلنا
وہ دوستوں کے گھر کا کھانا
وہ لڑکیوں کی باتیں 
وہ ساتھ رونا 
اب بھی میرے کئی دوست ہیں
پر دوستی جانے کہاں ہے
جب بھی ٹریفک سگنل پر ملتے ہیں
ہلو ہلو ہو جاتی ہے
اور پھر اپنے اپنے
راستے چل دیتے ہیں 
چھوٹی عید ہو یا بڑی عید
شادی ہو یا سالگرہ
خُوشی ہو یا غم
نئے سال پر
بس ایس ایم ایس آ جاتے ہیں،
شاید اب رشتے
تبدیل ہو رہے ہیں 
جب میں چھوٹا سا تھا
تب کھیل بھی عجیب ہوا کرتے تھے
چھپن چھپی ہو یا لگڈي ٹانگ
پوشم پا ہو یا ٹپپي ٹپپیی ٹاپ
اب وہاں انٹرنیٹ ہو یا موبائل 
اِن سے فرصت ہی نہیں ملتی 
شاید زندگی بدل رہی ہے
زندگی کا سب سے بڑا سچ یہی ہے 
جو اکثر قبرستان کے باہر
بورڈ پر لکھا ہوتا ہے 
 منزل تو یہی تھی
بس زندگی گزر گئی میری یہاں آتے آتے 
زندگی کا لمحہ بہت چھوٹا سا ہے 
کل کی کوئی بنیاد نہیں ہے
اور آنے والا کل صرف خوابوں میں ہی ہے 
اب جو بچ گئے ہیں 
اس لمحے میں تمناؤں سے بھری
اس زندگی میں ہم صرف حصہ ہیں
کچھ رفتار سست کرو
میرے دوستو
اور
اس زندگی کو جیو 
خوب جیو میرے دوستو





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں